آج 3 اپریل کو معمارِ نوائے وقت، امامِ صحافت اور نظریہ¿ پاکستان کے پاسبان و امین جناب مجید نظامی کا 95واں یومِ ولادت ملک کی سیاست پر طاری اس فضا میں منایا جارہا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین معزز ججوں پر مبنی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ اکثریتی فیصلہ آچکا ہے، لہٰذا اب عدالتی کارروائی کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ہفتے کے روز وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت لاہور میں ہونے والے اجلاس میں سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی چیف آرگنائزر مریم نواز سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور رہنماو¿ں نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیے سے یہ تاثر مزید واضح ہو جاتا ہے کہ اس وقت ریاست کے ستون ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس وطن عزیز کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھالنے اور آئین و انصاف کی عمل داری کے لیے ہمہ وقت فکرمند رہنے والے مجید نظامی آج حیات ہوتے تو آج کی سیاست کا چلن دیکھ کر اصلاحِ احوال کے لیے اپنی دبنگ شخصیت و کردار کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس وقت سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے جو آئینی بحران پیدا ہوا ہے اسے سے ملک کو نکالنے کے لیے کوئی بھی اپنی انا اور ہٹ دھرمی سے دستبردار ہونے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ آئینی تقاضوں کی پاسداری کے بغیر ملک کو درست سمت میں نہیں لے کر جایا جاسکتا ہے یہ پاسداری ہی جناب مجید نظامی کا مطمحِ نظر تھا کیونکہ اس سے ہی جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر رکھی جا سکتی ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ادارہ نوائے وقت نے آبروئے صحافت مجید نظامی کی ادارت میں جہاں ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا قومی فریضہ ادا کیا وہیں دامے درمے قدمے سخنے کشمیری عوام کی معاونت کرکے ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک کو فروغ دینے اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ قومی جذبے سے معمور یہ کردار الحمدللہ آج بھی نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ 5 اگست 2019ءکے مودی سرکار کے کشمیر کو ہڑپ کرنے اور اسے دنیا کی تاریخ کے بدترین اور طویل ترین کرفیو کے حوالے کرنے کے اقدام نے نوائے وقت کے اس قومی کردار کو بھی مہمیز لگائی ہے جو مجید نظامی کے وژن کے مطابق کلمہ¿ حق ادا کررہا ہے۔ 5 اگست کے شب خون کے بعد نوائے وقت صفحہ ¿اول پر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اشتہار مسلسل شائع کررہا ہے اور دشمنانِ پاکستان کے سینوں پر مجید نظامی کی ودیعت کردہ استقامت کے ساتھ مونگ دلتا رہے گا۔
ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ و پاسبان نوائے وقت گروپ نے معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی کے تحفظ و دفاع وطن سے معمور جذبے کو اپنی ڈھال بنا کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر بھارتی سازش کو بے نقاب کرنے اور بھارتی میڈیا کے زہریلے پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت جرا¿ت مندانہ کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کے کشمیر کاز میں کسی حکومتی پالیسی میں کمزوری کا تاثر پیدا ہونے پر انھیں جھنجوڑنے اور بھارتی شردھالوﺅں کی خبر لینے میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دو سال پہلے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کا فیصلہ کیا تو نوائے وقت نے انھی سطور میں اس فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے بھی پہلے سخت نوٹس لیا اور اسے کشمیر کاز سے انحراف کے مترادف قرار دیا چنانچہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اگلے ہی روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ بے شک مجیدنظامی کا یہی وژن ہے کہ مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل تک بھارت سے دوستی اور تجارت نہیں ہو سکتی۔ وہ سانپ کو دودھ پلا کر موٹا تازہ کرنے کی پالیسی سے گریز کی حکمرانوں کو ہمیشہ تلقین کیا کرتے تھے۔
نوائے وقت کی بنیاد مرحوم حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ءکو منٹوپارک لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر قائداعظم محمدعلی جناح کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رکھی تھی جس کا مقصد تحریک پاکستان کے خلاف سرگرم متعصب ہندو پریس کے پاکستان مخالف غلیظ پراپیگنڈا کا توڑ کرنا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد نوائے وقت کی نظریاتی صحافت کا یہ مشن قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور استحکام پاکستان کے لیے مختص ہوگیا۔ قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث ہی اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس پر بھارتی فوج نے اس نیت سے تسلط قائم کیا کہ پاکستان کی شہ رگ کاٹ کر اسے بے دست و پا بنادیا جائے تاکہ وہ بے بس ہو کر دوبارہ بھارت میں شامل ہو جائے۔ متعصب ہندو لیڈر شپ کی یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی کیونکہ قائداعظم نے اپنی فہم و بصیرت سے پاکستان کی معیشت کو اپنی زندگی میں ہی اپنے پاﺅں پر کھڑا کردیا تھا تاہم آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو دل سے قبول نہ کرنے والے بھارت نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دے کر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی زہریلی سازشوں کا آغاز کردیا چنانچہ آج قیام پاکستان کے 75 سال بعد بھی بھارت اپنی سازشوں پر کاربند ہے اور اب اپنے زیرتسلط کشمیر کو مکمل ہڑپ کرکے پاکستان کے علاوہ اس کے پورے خطے اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کرچکا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے آبادی کا مسلم اکثریت کا تناسب بگاڑنے کی سازش کی مگر کشمیری عوام اسے قبول کرنے کو تیار نہیں جس کے باعث ان پر زمین تنگ کردی گئی اور آج 1336 ویںروز بھی وہ بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں مگر ظلم کا کوئی بھارتی ہتھکنڈا ان کے جذبے ماند نہیں کر پایا اور پاکستان سے الحاق کی تمنا اور تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام نے بھارتی تسلط کے آغاز سے اب تک اس کی فوجوں اور دوسری فورسز کا ہر ظلم برداشت کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اور اس میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دی۔
یہی وہ قومی کاز ہے جس کے لیے آبروئے صحافت مجید نظامی نے بھی ہمیشہ کلمہ¿ حق بلند کیا اور کشمیر کی آزادی کے ذریعے تکمیل پاکستان کو اپنا مشن بنالیا۔ وہ قائداعظم کے ارشاد کے مطابق کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے تھے اور کشمیر کی آزادی کے لیے اٹھائی جانے والی ہر آواز کو نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر تقویت پہنچایا کرتے تھے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ لگایا تو مرحوم مجید نظامی اس کاز کے لیے ان کی ڈھال بن گئے۔ جس واحد نکتے پر انھوں نے جنرل ضیاءالحق کی ستائش کی وہ جہاد کشمیر کے لیے ان کے کردار سے متعلق تھا۔ انھوں نے اعلان کررکھا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی تک بھارت نہیں جائیں گے البتہ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ ٹینک پر چڑھ کر ضرور بھارت جانے کو تیار ہوں گے۔ وہ جذبہ¿ حریت سے سرشار نظر آتے تھے اور اپنی تقریروں میں اکثر اعلان کیا کرتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے بے شک مجھے توپ کے گولے کے ساتھ باندھ کر بھارت پر مار دو۔ کشمیر کاز کے ساتھ جڑے ہوئے قومی سیاسی قائدین بھی اسی بنیاد پر مرحوم مجید نظامی کی جرا¿ت و بہادری کے معترف تھے اور تحریک آزادی کے قائدین تو انھیں اپنا مرشد گردانتے تھے جبکہ مجید نظامی مرحوم بھی ان کے کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ انھوں نے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کو بھی کشمیر کاز کو فروغ دینے کے لیے وقف کیا۔
کشمیر کاز کے لیے مرحوم مجید نظامی کی بے لوث خدمات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانے کے لیے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر ’کشمیر فنڈ‘ قائم کیا جو ان کی نوائے وقت کی ادارت کے ساتھ شروع ہوا اور نوائے وقت گروپ آج بھی ان کے شروع کیے گئے اس مشن پر کاربند ہے۔ کشمیر فنڈ میں وصول ہونے والے عطیات بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیری عوام کی کفالت، فلاح و بہبود اور ان کے بچوں بچیوں کی شادیوں اور تعلیمی اخراجات میں معاونت کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔آج مرحوم مجید نظامی کی 95ویں سالگرہ ہے، وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے خدا کے حضور پیش ہوچکے ہیں اور ان کے خوابوں کی جنت کشمیر میں ظالم اور غاصب بھارتی فوجوں نے قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے جس سے بڑا ہمارے لیے اور کوئی کرب نہیں ہو سکتا۔ خدا مجید نظامی کو غریق رحمت کرے اور کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ان کا خواب شرمندہ¿ تعبیرہو۔
دنیا میں نہیں اور کہیں تیری نظیر، اے جنت ِ کشمیر
معمارِ نوائے وقت کے تو خواب کی تعبیر، اے جنت ِکشمیر