ماڈرن اسلام اور مجید نظامی 

 آج 3 اپریل ہے۔ ”مفسرِ نظریہ پاکستان“ اور روزنامہ ”نوائے وقت“ کے معمار جنابِ مجید نظامی کی 95 ویں سالگرہ۔ جنابِ مجید نظامی3 اپریل 1928ءمیں سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے تھے اور ایک بھرپور زندگی گزار کر 26 جولائی 2014ءکو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ موصوف جب تک حیات رہے، علامہ اقبال، قائداعظم اور مادرِ ملّت کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے میں مصروف رہے اور ہر حکمران کو ”حقیقی نظریہ پاکستان“ سمجھانے کی ہدایت کرتے رہے۔ مَیں نے 1956ءمیں میٹرک پاس کِیا اور پہلی نعت لکھی، جو فیصل آباد کے ایک روزنامہ میں شائع ہوئی۔ 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی اے فائنل کا طالبعلم تھا۔ جنابِ مجید نظامی کے روزنامہ ”نوائے وقت“ سے میرا 1964ئ سے تعلق تھا اور بعد ازاں انکی حیات تک اور بعد میں بھی کالم نویس کی حیثیت سے تعلق رہا۔ 
شاعرِ نظریہ¿ پاکستان
20 فروری 2014ءکو ” ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان“ میں چھٹی سہ روزہ نظریہ پاکستان کے لئے مَیں نے سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا، جس پر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ”شاعرِ نظریہ پاکستان“ کا خطاب دِیا۔ مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں کئی نظمیں لکھیں جن کا مَیں اپنے کالموں میں اکثر بیان کرتا ہوں۔ 
جنابِ مجید نظامی کا انٹرویو
معزز قارئین! اپریل 2000ءمیں ماہنامہ ”اردو ڈائجسٹ“ لاہور میں جنابِ مجید نظامی کا انٹرویو شائع ہوا اور اسکے بعد 3 اپریل 2016ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم ”سیاست نامہ“ میں وہی انٹرویو دوبارہ شائع ہوا تھا۔ پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر مَیں آج پھر اسی انٹرویو کو سوالاً جواباً مختصراً اپنے کالم میں شائع کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں …
مَیں :۔ محترم مجید نظامی صاحب! 1977ءمیں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی تحریک انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھی۔ پھر اس تحریک کا نام تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کیسے پڑ گیا؟
جناب مجید نظامی:۔ ”دراصل سیاسی جماعتیں کوئی نہ کوئی نعرہ لگا کر تحریکیں چلاتی ہیں جِس طرح بھٹو صاحب نے سوشلزم کو نافذ کرنے کے لئے اسے ”اسلامی سوشلزم“ کا جامہ پہنایا تو مذہبی جماعتوں نے بھی لوگوں کے لئے ”نظامِ مصطفیٰ“ کا نعرہ لگا دِیا حالانکہ پاکستان قومی اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں ایسی بھی تھیں جو نظامِ مصطفیٰ اور اسلام سے گھبراتی تھیں۔ بہرحال انہوں نے بھی ایک ”لیبل“ اور نعرے کے طور پر تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کو چلایا“۔
مَیں:۔ انگریز اسلام کو ”محمڈن ازم“ کہتے تھے۔ کیا نظامِ مصطفیٰ کی اصطلاح ”محمڈن ازم“ کا ترجمہ نہیں ہے؟
جنابِ مجید نظامی:۔ ” جی ہاں۔ اِس لئے نہیں کہ کل قراردادِ مقاصد پر بحث ہو رہی تھی، اسلام چونکہ مکمل نظریہ حیات ہے اور بطور مسلمان ہم سب پر اِس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر غلامی میں ہوں تب بھی اور اگر آزاد ہوں تو اپنی حکومت بنالیں تو تب بھی۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ۔ ” اگر آپ غلام رہ ہی نہیں سکتے ، آپ ہجرت کر جائیں“۔ نظامِ اسلام کا نفاذ تو اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ قراردادِ مقاصد پر علماءکے نمائندے کی حیثیت سے مولانا شبیر احمد عثمانی نے کہا تھا کہ۔ ”اسلام ملائیت اور پاپائیت کی اجازت نہیں دیتا!“۔ اِس خیال سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ایک ماڈرن اور روشن خیال عالمِ دین تھے۔ جہاں تک انگریزوں کی طرف سے اسلام کو ”محمڈن ازم“ کا نام دِئیے جانے کا تعلق ہے تو انگریزوں کا بادشاہ اور ملکہ بھی تو عیسائیت کے سربراہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پچھلی چودھویںصدی میں چلے جائیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے پاکستان کو فلاحی مملکت بنائیں، جِس میں ریاست عام لوگوں کی کفیل ہو اور ان کے لئے روزگار، مکان اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرے اور ان کے بچوں کے لئے تعلیم کا بندوبست بھی کرے“۔
مَیں:۔ جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں۔ عوام مذہبی جماعتوں کو بہت کم ووٹ دیتے ہیں۔ اتنے کم کہ وہ اپنی حکومت نہیں بنا سکتیں۔ اِس کی وجہ؟
جناب مجید نظامی:۔ ” مذہبی جماعتوںکو تو 1946ءکے عام انتخابات میں بھی ووٹ نہیں ملے تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے ساتھی علماءاورکئی مشائخ نے بھی قیامِ پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور جمعیت علماءاسلام مفتی محمود گروپ جو اس وقت جمعیت علمائے ہند کہلاتی تھی، ان سب نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی، جماعتِ اسلامی نے تو 1946ءکے عام انتخابات میں حِصّہ ہی نہیں لِیا تھا۔ مَیں جماعتِ اسلامی کے اکابرین سے بے تکلفی سے اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ انتخاب میں حِصہ نہ لینا تو مخالفت میں حِصہ لینے کے مترادف ہے“۔
مَیں:۔ علامہ اقبال نے مسلمان ملک کی منتخب پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دِیا تھا۔ علماءحضرات کو نہیں۔ آپ کیاکہتے ہیں؟
جناب مجید نظامی:۔” جی ہاں۔ علاّمہ اقبال نے اجتہاد کا حق منتخب مسلمان ارکانِ پارلیمنٹ کو دِیا اور فرمایا کہ ”بے شک پارلیمنٹ میں دو چار یا آٹھ دس علماءبھی شامل ہوں۔ آپ ہیں، مَیں ہوں یعنی ہم جیسے مسلمان تھوڑا سا مطالعہ کر کے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ فلاں چیز اسلامی ہے یا نہیں لیکن اِس کے باوجود آپ بے شک علماءکا بورڈ بنادیں، انہیں سینٹ میں منتخب کرالیں لیکن اجتہاد کا حق پارلیمنٹ کے پاس ہونا چاہیے۔ ہمیں جدِیدیت کو اپنانا ہوگا، دقیا نوسیت کو چھوڑنا ہوگا اور ”ماڈرن اسلام“ کو نافذ کرنا ہوگا۔ ہمیں زرِ مبادلہ کمانا اور بچانا ہوگا، اگر ہم سب یہ طے کرلیں کہ ہم لقمہ حرام کو ہاتھ نہیں لگائیں گے تو پاکستان ترقی کرسکتا ہے لیکن ، جو بھی حکمران آتا ہے وہ لوٹ مار کرتا ہے“۔ 
معزز قارئین:۔ مَیں نے اپنے انٹرویو کے اختتام پر لکھا کہ ”اگر علماءحضرات اور ان کی جماعتیں، انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کر کے پاکستان میں اسلام یا شریعت نافذ کر سکیں تو عوام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ مرزا غالب نے تو غریب غرباءکے بارے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … 
” رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دِن!“

ای پیپر دی نیشن