مجید نظامی صاحب سے دوستی ہوئی تو ان کی زندگی کی آخری سانس تک برقرار رہی۔ان کی کسی سے بھی دوستی اور دشمنی کا معیار مختصر الفاظ میں ملت اور ملک تھا۔ وہ اسلام اور پاکستان کیخلاف بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ اکابرینِ پاکستان کے انکے دل میں احترام کے بے پایاں جذبات تھے۔ ایک تقریب کے دورن کسی مقرر نے کہہ دیا کہ مجید نظامی اقبال اور قائد کے جاں نشین ہیں۔ اس موقع پر وہ فوری طور پر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ میں بانیانِ پاکستان کا جاں نشین نہیں ہوں میں ان کا ادنیٰ سا پیروکار ہوں۔ایک اجتماع کے دوران ایک بڑے سیاسی لیڈر مہمان خاص تھے۔ان لیڈر کو کسی نے قائد اعظم ثانی قرار دیا تو بھی نظامی صاحب ا±ٹھ کھڑے ہوئے اور برملا کہا کہ قائد اعظم اپنی نوعیت کی واحد شخصیت تھے ان کا کوئی ثانی نہیں ہوسکتا۔
مجھے یہ واقعہ آج پھر یاد آرہا ہے۔کسی نے اطلاع دی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک سکھ دانشور کو لیکچر کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔ ایک نوجوان لندن سے آکسفورڈ کیلئے بڑے شوق سے لیکچر سننے کیلئے روانہ ہوا۔ لوگ جوق در جوق ہال میں داخل ہورہے تھے۔ اس نوجوان کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ مہمان کے سٹیج پر آنے تک ہال بھر چکا تھا۔ حاظرین ایک ایک لفظ غور سے سن رہے تھے۔ لیکچر جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سکھ دانشور پٹڑی سے اترتا جارہا تھا۔ اس نے پاکستان کیخلاف بات کی اور قائداعظم کی ہرزہ سرائی کی تو لندن سے آکسفورڈ آنیوالا نوجوان کھڑا ہوگیا اور چلاتے ہوئے شدید غصے میں کہا۔ ”اوئے سکھا! بکواس بند کر“۔ اس پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ہر کسی کی نظریں اس نوجوان پر جم گئیں۔ یہ نوجوان مجید نظامی تھا۔ جن کے قریب سے تحریک آزادی کے دوران انکے دوست کی شہادت گزری تھی۔ ایک جلوس کے دوران ایک عمارت سے مسلمانوں کے دشمنوں نے پتھراﺅ کیا۔
ایک اینٹ نظامی صاحب کے ساتھ موجود کلاس فیلو محمد مالک کے سر پر لگی۔وہ شدید زخمی ہوگئے۔ انکو نظامی صاحب نے سنبھالا۔ محمد مالک نے نظامی صاحب کی بانہوں میں دم توڑا۔ نظامی صاحب نے اپنی تحریر اور تقریر میںکئی بار کہا کہ یہ اینٹ مجھے بھی لگ سکتی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک عرصہ محمد مالک شہید کے خون والی قمیض ان کے پاس رہی جو سامان میں کہیں کھو گئی۔ مجید نظامی صحافت کی دنیا کے ایک عظیم مفکرومدبر، نظریہ پاکستان کے پرجوش محافظ ، ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ وہ صحافت کو عبادت سمجھتے اور صحافت کیساتھ سیاست کو لازم قرار دیتے تھے۔ان کی سوچ کا مرکزومحور اسلام اور پاکستان تھا۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے کبھی قلم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی طرح مجید نظامی نے بھی زندگی بھر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مجید نظامی جمہوریت کے بہت بڑے داعی اور حامی تھے۔ تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد پاکستان کی سند اور تلوار عطا کی تھی۔ مجید نظامی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ قائداعظم، علامہ محمد اقبال اور مادرملت کے افکارو نظریات کی ترویج میں مسلسل کوشاں رہے۔ میں نے شروع میں کہا تھا کہ ان کی کسی سے بھی دوستی اور دشمنی اسلام اور پاکستان کے باعث ہی ہوتی تھی جو پاکستان کا دوست وہ ان کا دوست جو پاکستان کا مخالف وہ اسکے مخالف ہوتے تھے۔ میری مجید نظامی سے دوستی کا بھی دلچسپ واقعہ ہے۔ ان دنوں جب پاکستان متحد تھا میں وکالت کرتا تھا۔ میرے مشرقی پاکستان ہائیکورٹ کے مسٹر چیف جسٹس محبوب مرشد سے بہت اچھے مراسم تھے۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں پاکستان میں لاہور ہائیکورٹ کی سو سالہ تقریبات کا جشن منایا گیا۔
اس جشن میں پوری دنیاسے قانون دانوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ محبوب مرشد چیف جسٹس مشرقی پاکستان کے طور پر اس تقریب میں مدعو تھے۔
مجھے اس تقریب کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے محبوب مرشد کے ساتھ میزبان کے طور پرمتعین کیا۔ یہاں سے میرے اورمحبوب مرشد کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ شروع ہو۔ محبوب مرشد کے توسط سے ہی میری مجید نظامی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ وہ محبوب مرشد کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔ محبوب مرشد مغربی پاکستان آتے تو مجیدنظامی انکی دعوت کرتے اور ان دو کے علاوہ تیسرا میں اس دعوت میں شریک ہوتا تھا۔ محبوب مرشد ایک بڑے قانون دان اور انتہائی محب وطن پاکستانی تھے اور سادہ انسان تھے۔ ایک بار وہ لاہور آئے تو میرے گھر تشریف لے آئے، مجھے انہوں نے آگاہ نہیں کیا تھا۔ مجھے اطلاع ہوتی تو انکے شایان شان چائے وغیرہ کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ آئے تو میں کھانا کھا رہا تھا۔ انہوں نے کسی بھی تکلف سے منع کرتے ہوئے میرے ساتھ کھانا کھایا۔ وہ میرے ساتھ اپنے بچوں کی طرح محبت کرتے اور بڑے بڑے لوگوں کے مقابلے میں میری بات اور رائے کو ترجیح دیتے تھے مگر جب شیخ مجیب الرحمن کا وہاں طوطی بولنے لگا تو محبوب مرشد بھی اسی رومیں بہتے ہوئے مجیب الرحمن کے حامی ہو گئے۔
اسکے بعد میں نے انکے ساتھ پاکستان کی محبت میںقائم تمام تعلق ختم کردیا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا اس کے بعد مجید نظامی نے بھی محبوب مرشد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔ مجید نظامی سے میری ملاقاتیں رہیں مگر ہم نے کبھی محبوب مرشد کا ذکر نہیں کیا۔ مجید نظامی کی کشمیر کے ساتھ زبردست کمٹمنٹ تھی۔ وہ کشمیر کی آزادی تک بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات قطع رکھنے کے حامی تھے۔وہ آزادی کشمیر کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کے حامی تھے۔ اس حوالے سے وہ کہتے تھے کہ بھارت کو سبق سکھانے کیلئے اور کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے انہیں بم کیساتھ باندھ کر بھارت پر پھینک دیاجائے۔ آج جناب نظامی صاحب کی 95 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔
آج ہمیں مجید نظامی کے مشن کی تکمیل کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کامشن اسلام کی ترویج جمہوریت کا استحکام اور کشمیر کی آزادی تھا۔ آزادی صحافت کیلئے بھی ان کی قربانیاں لازوال ہیں۔