ڈاکٹر مجید نظامی آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی بے مثال اور کامیاب زندگی آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے-زندگی بھر پورے قد کے ساتھ کھڑے رہنا بہت مشکل کام ہے اور آمر و جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنا اور بھی زیادہ مشکل کام ہے- ڈاکٹر مجید نظامی نے اپنی زندگی میں یہ دونوں کام کر دکھائے - ڈاکٹر مجید نظامی کی بے باکی اور ثابت قدمی کا اعتراف ان کے نظریاتی مخالفین بھی کرتے ہیں- ڈاکٹر مجید نظامی کو ان کی زندگی میں قائد صحافت اور مجاہد صحافت کے القابات سے نوازا گیا- راقم کا ڈاکٹر مجید نظامی سے باہمی احترام کا طویل تعلق رہا- انہوں نے اپنی زندگی میں آنے والے ’’مقامات آہ و فغاں‘‘ کا بڑی دلیری اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا - وہ اپنے عظیم بھائی محترم حمید نظامی کی شاندار اور یاد گار روایات کے امین اور علمبردار تھے- ہم پاکستانی تنقید کرنے کے عادی ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم اچھے انسانوں کی خوشبو کی طرح پزیرائی کریں تاکہ سماج میں اچھائی پھیلے- ڈاکٹر مجید نظامی اپنے قابل اعتماد دوستوں کے ساتھ اپنی زندگی کے واقعات شیئر کیا کرتے تھے- ایک روز انہوں نے ملاقات کے دوران بتایا کہ جنرل ایوب اپنے دور اقتدار کے دوران ملاقات کرنے کا پیغام بھیجتے رہے اور میں ملاقات سے گریز کرتا رہا -
جنرل ایوب جب اقتدار سے معزول ہوئے تو انہوں نے اپنے سابق وزیر خارجہ منظور قادر ایڈووکیٹ کو کہا’’ ظالم مجید نظامی‘‘ سے کہو کہ اب تو مل لے- میں ان سے ملاقات کرنے کے لیے چلا گیا- دو منٹ تک ہم ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہے پھر ایوب خان نے کہا اب تو آپ خوش ہیں- میں نے پوچھا کس بات پر - ایوب خان نے کہا اب تو آپ کو مرضی کی جمہوریت مل گئی- میں نے کہا نہیں آپ تو جمہوریت نہیں قوم کو جنرل یحییٰ دے کر اقتدار سے رخصت ہو گئے ہیں- ایوب خان نے میری بات سن کر کہا "بیڑہ غرق پھر غلطی ہوگئی"- میں نے ایوب خان سے کہا کرسی نہ ہونے کا یہ فرق ہے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں- ڈاکٹر مجید نظامی نے یہ واقعہ سنانے کے بعد کہا حکمران کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے جنرل مشرف جنرل ایوب کے بھی استاد ہیں، یہ غلطی کرتے ہی نہیں- جو حکمران اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد غلطی تسلیم کرے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے-
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ڈاکٹر مجید نظامی نے جنرل یحییٰ خان کے ساتھ اپنے ایک مکالمے کے بارے میں بتایا - جنرل یحییٰ خان نے کچھ صحافیوں کے خلاف ڈیفینس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمات قائم کر رکھے تھے- اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ کے بعد مولانا کوثر نیازی نے جنرل یحییٰ خان سے صحافیوں کے خلاف مقدمات واپس لینے کی درخواست کی- جنرل یحییٰ خان نے کہا صحافی معافی مانگ لیں- ہال میں خاموشی چھا گئی- مولانا کوثر نیازی نے کہا جنرل صاحب آپ اس خاموشی کو ہی معافی تصور کر لیں- میں کھڑا ہو گیا اور کہا جنرل صاحب ہم کس بات کی معافی مانگیں- جنرل یحییٰ خان نے کہا پھر جاؤ اور مقدمے لڑو- میں نے پوچھا کہاں۔ یحیٰی نے کہا ملٹری کورٹس میں - میں نے کہا ہم نہ مارشل لاء کو لاء مانتے ہیں اور نہ ملٹری کورٹس کو کورٹس- جنرل یحییٰ خان کرسی سے اٹھ کر چلے گئے- حنیف رامے نے کہا نظامی صاحب نے بنا بنایا کام خراب کر دیا- ڈاکٹر مجید نظامی نے آمر کے سامنے کلمہ حق کہہ کر علامہ اقبال کے اس شعر پر عمل کر دکھایا -
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الااللہ
ڈاکٹر مجید نظامی نے بتایا کہ ان کے اخبار نے جنرل ضیاء الحق سے انٹرویو کا وقت مانگا- ضیاء الحق نے شرط عائد کر دی کہ صحافیوں کا جو پینل انٹرویو کے لیے آئے اس میں ڈاکٹر مجید نظامی بھی شامل ہوں- میں اپنی ٹیم کے ساتھ انٹرویو کے لیے چلا گیا - جب انٹرویو ختم ہوا تو جنرل ضیاء الحق نے پوچھا نظامی صاحب آپ نے کوئی سوال نہیں کیا - میں نے کہا آپ نے میری آمد کی شرط لگائی تھی سوال پوچھنے کی نہیں- کہنے لگے کچھ تو پوچھیں - میں نے ان کے اصرار پر پوچھا’’ جنرل صاحب ساڈی جان کدوں چھڈو گے‘‘- جنرل ضیاء الحق پریشان ہو گئے اور کہنے لگے بہتر تھا آپ سے سوال پوچھنے کی بات نہ کرتا- ڈاکٹر مجید نظامی نے جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بتایا- سینئر صحافیوں کی ایک پریس بریفنگ میں جنرل مشرف نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا ہوا تھا - بریفنگ کے آخر میں جنرل مشرف نے پوچھا نظامی صاحب آپ نے کوئی سوال نہیں کیا - میں نے کہا جنرل صاحب رہنے دیں- اس نے اصرار کیا کچھ تو کہیں- میں نے کہا آپ نے صدر بش نہیں پاول کے ایک فون پر سرینڈر کر دیا اور امریکہ کی ساری شرائط مان لیں- مشرف نے کہا اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے- میں نے جواب دیا کہ میں آپ کی جگہ پر ہوتا ہی کیوں۔ اور آپ بھی اس جگہ پر کیوں ہیں۔ یہ آپ کی جگہ تو نہیں۔ اصل خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی آدمی اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مداخلت کرتا ہے۔ جنرل مشرف نے میری باتیں سن کر میٹنگ ختم کر دی- جب کمرے سے باہر نکلا تو جنرل مشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز میرے ساتھ چل رہے تھے- کہنے لگے نظامی صاحب آپ ہمارے پریذیڈنٹ سے کیسے باتیں کر رہے تھے- میں نے کہا آپ کون ذات شریف ہیں- طارق عزیز نے کہا آپ مجھے نہیں جانتے میں طارق عزیز ہوں- میں نے کہا میں تو آپ کو نہیں جانتا - ڈاکٹر مجید نظامی نے نوائے وقت گروپ کو یونیورسٹی بنا دیا سینکڑوں صحافیوں نے اس ادارے سے صحافت کی عملی تربیت حاصل کی- ڈاکٹر مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان قائد اعظم کے نام سے دو یاد گار ادارے قائم کیے اور ان کو چلانے کے لیے نوجوانوں کی ٹیم تیار کی- آج نوائے وقت گروپ محترمہ رمیزہ مجید نظامی کی پرعزم قیادت میں پاکستان کی صحافت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے-