حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ فتح کرنے کے لیے جو لشکر کشی فرمائی وہ محض لشکر کشی نہ تھی ۔ محض لڑائی کی خاطر نہ تھی بلکہ آپ ﷺ نے سفر کا ایسا انتظام فرمایا کہ قریش مکہ کو بالکل بھی خبر نہ ہو ۔ بلکہ اس کا مقصد ساری دنیا کو امن و امان کا پیغام دینا تھا اور یہ کہ حرم کعبہ ہمیشہ کے لیے صلح و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔
آپ ﷺ نے اس کے لیے ایسا انتظام فرمایا کہ گھر میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی خبر نہ تھی اور باہر آپﷺ کے ہمراز سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خبر دار تھے کہ کہا ںجانے کا ارادہ ہے ۔ تمام مسلمانوں کو صرف یہ کہ کر تیاری کا حکم فرمایا کہ بہت اہم مہم پہ جاناہے ۔مختلف قبائل کے سرداروں کو الگ الگ بلا کر تیاری کا حکم فرمایا اور فرمایا ہم آپ کی طرف آئیں گے ہمارے ساتھ مل جانا ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ایک تو اپنے طور پر خفیہ تیاری کی اور دوسری طرف اللہ تعالی سے دعا فرمائی کہ اے اللہ مخبروں اور جاسوسوں کو قریش سے دور کر دے ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اگر قریش کو پتہ چل گیا تو وہ بھی لڑائی کی تیاری کریں گے جس کے نتیجے میں جنگ ضرور ہو گی اس لیے یہ سب راز داری سے کیا گیا کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ۱۰ رمضان المبارک ۸ ہجری کو مدینہ منورہ سے سفر شروع کیا اور راستے میں دس ہزار کا لشکرتیار ہو گیا اور ۳۰۰ میل کا یہ سفر اتنی خاموشی اور برق رفتاری سے طے کیا کہ قریش مکہ کو خبر تک نہ ہوئی۔قریش مکہ نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی میں اپنے حلیف قبیلہ بنو بکر کی مدد کی اور حرم کعبہ میں قبیلہ خزاعہ کے لوگوں کا قتال کیا گیا ۔ جو صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے سامنے تین شرائط رکھی تھیں کہ وہ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیں ، بنو بکر کی مدد سے دستبردار ہو جائیں یا پھر صلح حدیبیہ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں جس کی رو سے ۱۰ سال تک جنگ بندی کی گئی تھی ۔
قریش نے تیسری شرط قبول کی اس لیے مسلمانوں کو لشکر کشی کا جواز بھی مل گیا تھا ۔ اس معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ابو سفیان مدینہ بھی آیا مگر ناکام رہا ۔ قریش مکہ کو مسلمانوں کی طر ف سے حملہ کرنے کا ڈر تھا ۔ لیکن اللہ تعالی نے مسلمانوں کی تیاری اور روانگی خفیہ رکھی ۔