آج 3 اپریل کو معمارِ نوائے وقت، امامِ صحافت اور نظریہ پاکستان کے پاسبان و امین جناب مجید نظامی کا96 واں یومِ ولادت ملک کی سیاست پر طاری اس فضا میں منایا جارہا ہے کہ 8 فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت معرض وجود میں آنے کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام کی فضا استوار نہیں ہو پائی۔ اس سے پہلے مملکت خداداد سیاسی اور معاشی بحران سمیت گوناں گو مسائل کی لپیٹ میں تھی۔امید کی جا رہی تھی کہ انتخابات کے بعد سیاسی اور معاشی بحران ختم ہو جائیں گے اور ملک ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔
مگر جس طرح کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی امید کی جا رہی تھی اس طرح کا استحکام افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نظر نہیں آرہا۔سیاسی اختلافات جمہوریت کا حصہ بلکہ کچھ حلقے تو اسے جمہوریت کا حسن بھی کہتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک پہنچ جاتے ہیں اور ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ملکی استحکام کے لیے تمام پارٹیوں اور سٹیک ہولڈرز کو اختلافات سے بالاتر ہو کر برداشت تحمل اور بردباری سے کام لینا ہوتا ہے مگر یہاں آج بھی انائیں کار فرما نظر آتی ہیں۔ادھر پاکستان میں دہشت گردی بھی پر پھیلا رہی ہے۔
وطن عزیز کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھالنے اور آئین و انصاف کی عمل داری کے لیے ہمہ وقت فکرمند رہنے والے مجید نظامی آج حیات ہوتے تو آج کی سیاست کا چلن دیکھ کر اصلاحِ احوال کے لیے اپنی دبنگ شخصیت و کردار کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ادارہ نوائے وقت نے آبروئے صحافت مجید نظامی کی ادارت میں جہاں ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا قومی فریضہ ادا کیا وہیں دامے درمے قدمے سخنے کشمیری عوام کی معاونت کرکے ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کی تحریک کو فروغ دینے اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ قومی جذبے سے معمور یہ کردار الحمدللہ آج بھی نہ صرف جاری وساری ہے بلکہ 5 اگست 2019ء کے مودی سرکار کے کشمیر کو ہڑپ کرنے اور اسے دنیا کی تاریخ کے بدترین اور طویل ترین کرفیو کے حوالے کرنے کے اقدام نے نوائے وقت کے اس قومی کردار کو بھی مہمیز لگائی ہے جو مجید نظامی کے وڑن کے مطابق کلمہ حق ادا کررہا ہے۔ 5 اگست کے شب خون کے بعد نوائے وقت صفحہ اول پر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اشتہار مسلسل شائع کررہا ہے اور دشمنانِ پاکستان کے سینوں پر مجید نظامی کی ودیعت کردہ استقامت کے ساتھ مونگ دلتا رہے گا۔
ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ و پاسبان نوائے وقت گروپ نے معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی کے تحفظ و دفاعِ وطن سے معمور جذبے کو اپنی ڈھال بنا کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہر بھارتی سازش کو بے نقاب کرنے اور بھارتی میڈیا کے زہریلے پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت جرات مندانہ کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کے کشمیر کاز میں کسی حکومتی پالیسی میں کمزوری کا تاثر پیدا ہونے پر حکمرانوں کو جھنجوڑنے اور بھارتی شردھالوئوں کی خبر لینے میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بے شک مجیدنظامی کا یہی وژن ہے کہ مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل تک بھارت سے دوستی اور تجارت نہیں ہو سکتی۔ وہ سانپ کو دودھ پلا کر موٹا تازہ کرنے کی پالیسی سے گریز کی حکمرانوں کو ہمیشہ تلقین کیا کرتے تھے۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کشمیر میں بھارت کے مظالم اسی طرح سے جاری ہیں۔2019ء کے بعد وادی کشمیر بھارتی فوج کے محاصرے میں ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کے ساتھ تجارت سمیت تمام تعلقات ختم کر لیے تھے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کے تاجر بھارت کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وزیر تجارت قیصر احمد شیخ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت عوام کے فائدے میں ہے جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت پر تاجروں کی درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ادھر بھارتی وزیر خارجہ جیشنکر کی طرف سے پاکستان کے ساتھ یہ جھوٹا الزام لگاکر بات کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
ایسے میں تاجروں اور ہمارے وزراء کو بھارت کے ساتھ تجارت کا خبط کیوں ہے؟ مفادات سے بالاتر ہو کر قومی غیرت کا مظاہرہ کیجئے۔ اور امامِ صحافت مجید نظامی کے اس قول کو حرزِ جاں بنائیے کہ مسئلہ کشمیر کے آبرو مندانہ حل کے بغیر بھارت سے دوستی اور تجارت کرنا سانپ کو دودھ پلا کر موٹا تازہ کرنے کے مترادف ہے۔
نوائے وقت کی بنیاد مرحوم حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء کو منٹوپارک لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر قائداعظم محمدعلی جناح کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رکھی تھی جس کا مقصد تحریک پاکستان کے خلاف سرگرم متعصب ہندو پریس کے پاکستان مخالف غلیظ پراپیگنڈا کا توڑ کرنا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد نوائے وقت کی نظریاتی صحافت کا یہ مشن قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور استحکام پاکستان کے لیے مختص ہوگیا۔ قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث ہی اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا جس پر بھارتی فوج نے اس نیت سے تسلط قائم کیا کہ پاکستان کی شہ رگ کاٹ کر اسے بے دست و پا بنادیا جائے تاکہ وہ بے بس ہو کر دوبارہ بھارت میں شامل ہو جائے۔ متعصب ہندو لیڈر شپ کی یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی کیونکہ قائداعظم نے اپنی فہم و بصیرت سے پاکستان کی معیشت کو اپنی زندگی میں ہی اپنے پائوں پر کھڑا کردیا تھا تاہم آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کو دل سے قبول نہ کرنے والے بھارت نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دے کر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی زہریلی سازشوں کا آغاز کردیا چنانچہ آج قیام پاکستان کے 76 سال بعد بھی بھارت اپنی سازشوں پر کاربند ہے اور اب اپنے زیرتسلط کشمیر کو مکمل ہڑپ کرکے پاکستان کے علاوہ اس پورے خطے اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کرچکا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اس کی آبادی کا مسلم اکثریت کا تناسب بگاڑنے کی سازش کی مگر کشمیری عوام اسے قبول کرنے کو تیار نہیں جس کے باعث ان پر زمین تنگ کردی گئی اور آج 1702 روز کے بعد بھی وہ بھارتی فوج کے محاصرے میں ہیں مگر ظلم کا کوئی بھارتی ہتھکنڈا ان کے جذبے ماند نہیں کر پایا اور پاکستان سے الحاق کی تمنا اور تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام نے بھارتی تسلط کے آغاز سے اب تک اس کی فوجوں اور دوسری فورسز کا ہر ظلم برداشت کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اور اس میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دی۔
یہی وہ قومی کاز ہے جس کے لیے آبروئے صحافت مجید نظامی نے بھی ہمیشہ کلمہ حق بلند کیا اور کشمیر کی آزادی کے ذریعے تکمیل پاکستان کو اپنا مشن بنالیا۔ وہ قائداعظم کے ارشاد کے مطابق کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے تھے اور کشمیر کی آزادی کے لیے اٹھائی جانے والی ہر آواز کو نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر تقویت پہنچایا کرتے تھے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ لگایا تو مرحوم مجید نظامی اس کاز کے لیے ان کی ڈھال بن گئے۔ جس واحد نکتے پر انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی ستائش کی وہ جہاد کشمیر کے لیے ان کے کردار سے متعلق تھا۔ انھوں نے اعلان کررکھا تھا کہ وہ کشمیر کی آزادی تک بھارت نہیں جائیں گے البتہ کشمیر کی آزادی کے لیے وہ ٹینک پر چڑھ کر ضرور بھارت جانے کو تیار ہوں گے۔ وہ جذبہ حریت سے سرشار نظر آتے تھے اور اپنی تقریروں میں اکثر اعلان کیا کرتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے بے شک مجھے توپ کے گولے کے ساتھ باندھ کر بھارت پر مار دو۔
کشمیر کاز کے ساتھ جڑے ہوئے قومی سیاسی قائدین بھی اسی بنیاد پر مرحوم مجید نظامی کی جرأت و بہادری کے معترف تھے اور تحریک آزادی کے قائدین تو انھیں اپنا مرشد گردانتے تھے جبکہ مجید نظامی مرحوم بھی ان کے کشمیر کاز کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ انھوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو بھی کشمیر کاز کو فروغ دینے کے لیے وقف کیا۔
کشمیر کاز کے لیے مرحوم مجید نظامی کی بے لوث خدمات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانے کے لیے نوائے وقت کے پلیٹ فارم پر ’کشمیر فنڈ‘ قائم کیا جو ان کی نوائے وقت کی ادارت کے ساتھ شروع ہوا اور نوائے وقت گروپ آج بھی ان کے شروع کیے گئے اس مشن پر کاربند ہے۔ کشمیر فنڈ میں وصول ہونے والے عطیات بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیری عوام کی کفالت، فلاح و بہبود اور ان کے بچوں بچیوں کی شادیوں اور تعلیمی اخراجات میں معاونت کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔آج مرحوم مجید نظامی کی 96 ویں سالگرہ ہے، وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے خدا کے حضور پیش ہوچکے ہیں اور ان کے خوابوں کی جنت کشمیر میں ظالم اور غاصب بھارتی فوجوں نے قیامت صغریٰ برپا کر رکھی ہے جس سے بڑا ہمارے لیے اور کوئی کرب نہیں ہو سکتا۔ خدا مجید نظامی کو غریق رحمت کرے اور کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ان کا خواب شرمندہ تعبیرہو۔
دنیا میں نہیں اور کہیں تیری نظیر، اے جنت ِ کشمیر
معمارِ نوائے وقت کے تو خواب کی تعبیر، اے جنت ِکشمیر