سلمان غنی
یہ مخمصہ ہر انسان کا رہا کہ وہ تلاش رزق میں اپنی خواہشات اور آرزوئوں کی قربانیاں دیتا رہا۔ وہ کرنا کچھ اور چاہتا تھا لیکن اسے کچھ اور کرنا پڑا اور یہ افتخار بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا کہ اس کا رزق اور عشق اکٹھا ہوا۔ نوائے وقت میرا رزق بھی رہا اور عشق بھی! بقول مختار مسعود: جب یہ دونوں چیزیں یکجا ہو جائیں تو معجزہ رونما ہوتا ہے۔ میں نے 15 سال نوائے وقت میں کام کیا ہے۔ مجید نظامی ہمارے ایڈیٹر ہی نہیں تھے بلکہ والد کی طرح تھے اور جس طرح کوئی باپ اپنے بچوں سے پیش آتا ہے وہ اسی طرح اپنے کارکنوں سے پیش آتے تھے۔
بحیثیت رپورٹر اور پھر چیف رپورٹر نوائے وقت جیسے اخبار کی ملازمت کوئی آسان کام نہیں تھا مگر جب مجید نظامی جیسے عظیم المرتبت شخصیت کی چوکس نگاہیں اس اخبار کے ہر لفظ، ہر سطر اور ہر پیراگراف پر ہوں کہ اس نظریاتی اخبار کا بانکپن متاثر تو نہیں ہو رہا کہیں اس کے فکر کا دیا بجھ تو نہیں رہا، کہیں نظریہ پاکستان کی کوئی کونپل مسلی تو نہیں جا رہی، ہماری کسی تحریر سے ملک مفاد تو اثر انداز نہیں ہو رہا، خواہ مخواہ کسی شخص، جماعت یا ادارہ کی کریڈیبلٹی تو متاثر نہیں ہو رہی؟ تو یہ یقینا مشکل کام تھا اور بحیثیت چیف رپورٹر اس بھٹی سے ہم روزانہ گزرتے۔ پھر احساس ہوتا کہ جناب مجید نظامی کی قیادت میں ہم اور بھی کندن بنے کر نکلے ہیں اور یہ احساس نوائے وقت کے درودیوار سے جھلکتا نظر آتا۔
نوائے وقت نظریاتی فکر کا علمبردار ہے۔ اس لیے جب جب پاکستان کا ذکر ہوتا ہے نوائے وقت تب تب موضوع بحث بنتا ہے۔ دنیا کے نقشہ پر جس طرح قیام پاکستان ایک معجزہ سمجھا اور مانا گیا کہ یہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی آرزوئوں کا گہوارہ ہے۔ نوائے وقت کی فکر بھی اسی طرح اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے چلتی اور پنپتی رہے گی۔ حمید نظامی سے شروع ہونے والا یہ سفر مجید نظامی کی قیادت میں بڑی شان سے چلااور چلتا رہے گا۔ سخت سے سخت حالات میں نوائے وقت کا یہ سفر جاری رہا۔ ہر دور کے آمر نے نوائے وقت کو دبانے اور جھکانے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ،مگروہ اس کی آرزو لئے فنا ہوتا رہا اور نوائے وقت پر اثر انداز نہ ہو سکا،جبکہ اس کے برعکس جناب مجید نظامی کی قیادت میں نوائے وقت ہر امتحان کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتا رہا۔
مجید نظامی کی صحافت مادر پدر آزاد نہیں تھی بلکہ قومی مفادات پر مبنی تھی وہ جمہوریت اور قومی اداروں کی مضبوطی چاہتے تھے۔ ان کی پانچ ترجیحات تھیں نظریہ پاکستان، کشمیر، ایٹمی پروگرام، کالا باغ ڈیم اور پاکستان۔ انہوں نے اپنی صحافت اور اپنے خیالات کا محورو مرکز پاکستان کو رکھا اور سیاستدانوں کی طرح اپنے اپنے نظریات اور خیالات نہیں بلکہ صرف اور صرف نظریہ پاکستان کو مقدم رکھا۔ آنے والے دنوں میں نظامی صاحب کی کمی شدت سے محسوس کی جائے گی۔