آخری قسط
ڈاکٹر اے آر خالد
ڈاکٹر انوار احمد کی باتوں میں وزن تھا۔ ان کا وژن تھا مگر ان کا انٹرویو ٹیلی ویژن پر لینے کےلئے آمادہ کرنے والا رکن دوسرے ارکان کی اناﺅں کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور ڈاکٹر انوار احمد کے منصوبوں کی تکمیل ہوتے دیکھ کر انہیں اس منصب کےلئے نہ چنا گیا۔ وہ وائس چانسلر بن کر بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کو پاکستان کی نمبر 1 جامعہ بنا دیتے مگر وہ شاید کسی وزیراعظم یا چانسلر کی مداخلت قبول نہ کرتے اور جنرل عتیق الرحمن کے وائس چانسلر کی خوبیوں کو عملی شکل میں سامنے رکھتے۔جنرل عتیق الرحمن مغربی پاکستان کی ساری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے ملاقات اور یونیورسٹیوں کے حالات جاننے کے بعد جہاں ایک طرف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاﺅالدین صدیق کا ایک واقعہ افسوس کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں
Another Vice Chancellor who was well known as an Islamic Schollor and whose lecture on Islam even. I remember to this day, told me that he had to put his wife and daughters in one room when some students bursts into home as he feared these his family would be molested. His faith though firm, was shaken. This was the ghastly atmosphere in which some Vice Chancellors had to live.
اس افسوسناک اور شرمناک واقعہ اور بہت ہی نامناسب ماحول کے ذکراور ڈاکٹر اشتیاق قریشی ایسے خوددار وائس چانسلروں سے رابطے کے بعد جنرل عتیق الرحمن لکھتے ہیں۔
In my opinion Vice Chancellor should be chosen for their administrative powers and strong personaliteis. After that the Chancellor or anybody else for that matter should not be allowed to interfere at all. Vice Chancellor should use the powers of rustication much more than they do and get rid of those students and teachers who do not want to work. Achievements in the Scholastic field must be kept upper most. However the participation of the students in all matters that concern them directly must be ensured. All \\\'sifarishes\\\' from politicians and others should be routed to the Chancellor for his comments even if these are verbal.
وائس چانسلروں کی تقرری کے بارے میں پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ریٹائرمنٹ کے قریب یا ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی پروفیسروں سے درخواستیں مانگنا اور ان کو کسی سرچ کمیٹی کے سپرد کر کے انٹرویو کرانا ان اساتذہ کی توہین ہے جو عہدے کی خاطر یہ نظرانداز کر جاتے ہیں۔
ڈاکٹر اے آر خالد
ڈاکٹر انوار احمد کی باتوں میں وزن تھا۔ ان کا وژن تھا مگر ان کا انٹرویو ٹیلی ویژن پر لینے کےلئے آمادہ کرنے والا رکن دوسرے ارکان کی اناﺅں کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور ڈاکٹر انوار احمد کے منصوبوں کی تکمیل ہوتے دیکھ کر انہیں اس منصب کےلئے نہ چنا گیا۔ وہ وائس چانسلر بن کر بہاﺅالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کو پاکستان کی نمبر 1 جامعہ بنا دیتے مگر وہ شاید کسی وزیراعظم یا چانسلر کی مداخلت قبول نہ کرتے اور جنرل عتیق الرحمن کے وائس چانسلر کی خوبیوں کو عملی شکل میں سامنے رکھتے۔جنرل عتیق الرحمن مغربی پاکستان کی ساری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں سے ملاقات اور یونیورسٹیوں کے حالات جاننے کے بعد جہاں ایک طرف پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاﺅالدین صدیق کا ایک واقعہ افسوس کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں
Another Vice Chancellor who was well known as an Islamic Schollor and whose lecture on Islam even. I remember to this day, told me that he had to put his wife and daughters in one room when some students bursts into home as he feared these his family would be molested. His faith though firm, was shaken. This was the ghastly atmosphere in which some Vice Chancellors had to live.
اس افسوسناک اور شرمناک واقعہ اور بہت ہی نامناسب ماحول کے ذکراور ڈاکٹر اشتیاق قریشی ایسے خوددار وائس چانسلروں سے رابطے کے بعد جنرل عتیق الرحمن لکھتے ہیں۔
In my opinion Vice Chancellor should be chosen for their administrative powers and strong personaliteis. After that the Chancellor or anybody else for that matter should not be allowed to interfere at all. Vice Chancellor should use the powers of rustication much more than they do and get rid of those students and teachers who do not want to work. Achievements in the Scholastic field must be kept upper most. However the participation of the students in all matters that concern them directly must be ensured. All \\\'sifarishes\\\' from politicians and others should be routed to the Chancellor for his comments even if these are verbal.
وائس چانسلروں کی تقرری کے بارے میں پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ریٹائرمنٹ کے قریب یا ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی پروفیسروں سے درخواستیں مانگنا اور ان کو کسی سرچ کمیٹی کے سپرد کر کے انٹرویو کرانا ان اساتذہ کی توہین ہے جو عہدے کی خاطر یہ نظرانداز کر جاتے ہیں۔