کیا پاکستانی قوم کا کوئی پرسانِ حال ہے؟

پاکستان آج جن حالات سے گزر رہا ہے‘ کچھ تو بیرونی طاقتوں نے مسلط کئے ہیں لیکن زیادہ تر خرابی کے ذمہ دار ہمارے نام نہاد حکمران اور سیاستدان ہیں جنہوں نے اس ملک میں قوم کے ساتھ جھوٹے وعدوں پر مبنی ملکی سیاست کا کاروبار چلایا اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ملک کی معاشی اور سیاسی تصویر ایک المیہ کی داستان پیش کرتی ہے۔ بجلی ہے اور نہ ہی پانی ہے جبکہ رمضان کا مہینہ ہے اور مہنگائی ہی مہنگائی ہے۔ اب تو عوام کی بے بسی خونریز ہنگاموں میں بدلتی جا رہی ہے۔ شاہراہیں بند اور سیاسی رہنما¶ں کے پوسٹر جلائے جا رہے ہیں اور کئی جگہوں پر تو پولیس کی بھی درگت بن رہی ہے اور پاکستان کی تاریخ کی اس کرپٹ ترین اور نااہل ترین حکومت کی تمام ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی ہے اور اخلاقیات کا فقدان اس حد تک ہے کہ ان سے کسی بھی طرح کے بیان کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پچھلے دنوں صدر پاکستان آصف علی زرداری کیا خوب ارشاد فرماتے ہیں کہ ”گیلانی کے چھن جانے سے قوم کو راجہ کا تحفہ دیا“ اور اب یہ ”تحفہ“ عوام کو لوڈشیڈنگ کے دردناک کچوکے دے رہا ہے۔ موصوف اس وزیراعظم کے تحفے نے 10 بار بیان دیا کہ رمضان المبارک میں افطار‘ تراویح اور سحری کے دوران لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی جبکہ اللہ کے فضل سے ان تین اوقات پر ہی لوڈشیڈنگ تواتر کے ساتھ ہو رہی ہے جبکہ مساجد میں نماز کے دوران بھی بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں بلکہ صنعتکار اپنا سرمایہ اور کارخانے دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔
پاکستان کے بڑے بڑے شہر نہ صرف دہشت گردوں کی خفیہ پناہ گاہوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں بلکہ خطرناک جرائم پیشہ افراد کے یرغمالی بن چکے ہیں اور امن و امان قائم کرنے والی ایجنسیاں ان کے سامنے بے بس ہو چکی ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ ریاست اور اس کا نظام قوم کے عام افراد کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ سارے چور اور ڈاکو تو خود ریاست اور اس کے نظام کا حصہ بن چکے ہوئے ہیں۔ معیشت کا ڈھانچہ مسمار ہو چکا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام تو دور کی بات ہے حکومت وقت تو ان کی اپنی دہلیز سے ہی ہتک آمیز طریقے سے واپس کر دیتی ہے۔ اگر کوئی وزیر نااہل ہو جائے تو مشیر بنا دیا جاتا ہے۔ امریکی سینٹ کی ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین کو اس کے داماد نے سالگرہ پر عمدہ شراب کی پیٹی کا تحفہ دیا تو شور مچ گیا کہ جس فرم میں وہ ملازم ہے اس کے مطابق تو اس کی اتنی استطاعت ہی نہیں کہ وہ شراب کی پیٹی خرید کر تحفہ میں دے سکے تو بالآخر چیئرمین نے استعفیٰ کے ساتھ وہ تحفہ بھی واپس کر دیا اور ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک کا صدر جس نے سیاست کو کاروبار بنا رکھا ہوا ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد کی لسٹ میں نام حاصل کر چکا ہے اور اس کی سپاہ میں شامل باقی افراد بھی قومی دولت کو شیر مادر سمجھ کر ملک سے باہر لے جا رہے ہیں اور اندرون ملک غربت کسمپرسی اور معاشی بدحالی اور بیروزگاری کے سیاہ سائے قوم کو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں لیکن پاکستانی قوم کا ان حالات میں کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن قارئین میں پھر بھی اپنی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آتے تازہ ہوا کے جھونکے کو دیکھ کر امید کی کرن ضرور محسوس کر رہی ہوں بس آپ بھی ملک کیلئے دعا کیجئے۔

ای پیپر دی نیشن