لکھنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کبھی ملک ریاض سے پیسے یا پلاٹ لئے بغیر ملکی مفاد اور ضمیر کی آواز پہ مخلص اور محب وطن حکمران کو بھی ایسا مشورہ دیں جو کابینہ کے سینکڑوں بے ضرر وزیروں اور مشیروں کے مشورے کے برعکس ہو۔ لہٰذا ہمارا مشورہ یہ ہے کہ بغیر کسی خوق و خطر کے اور عمران خان یا میاں نواز شریف سے ڈرے پارلیمان سے یہ تجویز بھی منظور کرالیں کہ آج سے ماہِ رمضان کے بقیہ روزے تمام پاکستانی رات کو رکھیں، اگر ترمیم میں یہ شق بھی شامل کرا لیں کہ یہ قدم جمہوریت کی بقاءکیلئے اٹھایا جارہا ہے تو پھر میاں نواز شریف بھی بادل نخواستہ خاموشی اختیار کرلیں گے جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو ہذا من فضل ربی کے تحت اُن سے ایسا بیان لیاجاسکتا ہے کہ جسکے دو معنی نکلتے ہوں جو اس ترمیم کے حق میں ہونگے وہ بیان کو حق میں سمجھیں گے جو مخالف ہونگے و ہ ترمیم کے خلاف سمجھیں گے۔لہٰذا ہمارا تو یہی دیانتدارانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اور مولانا مفتی منیب الرحمن کے آنے سے پہلے یہ ترمیم منظور کرالیں ورنہ مولانا کا عیدالفطر کے چاند کے اعلان کا بیان اتنا طویل ہونے کا خدشہ ہے کہ عیدالضحیٰ نہ آجائے اور آپکی محنت آکارت نہ چلی جائے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مسلمان سڑکو ں پہ نہ آجائیں تو میں صدقِ دل سے یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان ایسا غیر اخلاقی اور غیر شرعی کام کبھی نہیں کریں گے کیونکہ امیر کی اطاعت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، وقت چونکہ ترمیم کا تھوڑا ہے لہٰذا امیر کی وضاحت پھر کبھی کرلیں گے اگر مسلمانوں نے سڑکوں پہ آنا ہوتا تو عافیہ صدیقی کیلئے سڑکوں پہ آتے ،کراچی کے عوام بڑے خوش قسمت ہیں کہ چونکہ وہاں بھی بجلی اور پانی کی قلت ہے جب نہائے ہوئے کچھ دیر ہوجائے تو وہ لوگ اجتماعی طورپر سڑکو ں پہ نکل آتے ہیں اور پھر حکومت کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں پانی کے ٹینکر سے نہلا کر حقیقی معنوں میں لوٹ پوٹ کردیتی ہے،پریشر اگر خدانخواستہ زیادہ ہوجائے تو پھر متاثرین سَر کے بل گرتے ہی ایسی نئی نئی گالیاں ایجاد کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام تو اس طریقے سے بنانے کی رعایت سے فائدہ اٹھالیتے ہیں۔بے چارے حکمران بغیر نہائے ہی ہم پہ حکمرانی کر رہے ہیں۔بہر حال حکمران عوامی لیگ کے عوامی لیڈر کی عوامی زبان و بیان پہ یقین رکھیں کہ قوم اور فوج نے سَتو اور دَھنیا پی لیا ہے، قوم سڑکوں پہ نہیں آئیگی۔ ہمیں حکیم شیخ رشید احمد کی بات سے اتفاق ہے اور آجکل ہم ان کے متفیقن کی صف میں اسلئے شامل ہیں کہ شیخ صاحب قوم کی قیادت کیلئے خود سڑکوں پہ کیوں نہیں آتے صرف دفاعِ کونسل کے ٹرکوں پہ آتے ہیں۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شیخ صاحب نے خود بھی دَھنیا گھوٹ کے پیا ہے شیخ صاحب بھی تو عوامی آرمی اوراسی قوم کے فرد ہیں۔
صدر زرداری خوش نصیب ہیں کہ انکے ملک کا آئین لکھا ہوا جس میں وہ مرضی کی ترامیم اور اضافہ کرسکتے ہیں جس ملک کے آئین ہی نہیں ہے وہ بائبل اور انجیل میں تو ترمیم یا اضافہ کرلیتے ہیں مگر اپنی روایات اور قانون سے انحراف نہیں کرتے اور اسلئے تنزلی کا شکار ہیں جبکہ ہمارے ملک کے میرٹ کا معیار اتنا بلند ہے کہ قیدی اور قاتل بھی جیل سے نکلتے ہیں۔امریکہ سے تھوڑا ریفریشر کورس کرکے ایوان میں پہنچ سکتے ہیں کیونکہ بقول انکے جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے اور لوڈشیڈنگ بہترین انتقام کی شکل ہے مگر اسکے باوجود ہمارا معیارِ زندگی برطانیہ سے بلند تر ہے کیا برطانیہ میں کسی کو ننگ دھڑنگ ہوکر سڑکوں پہ آنیکی اجازت ہے مگر یہاں جیل روڈپہ اپوا، لاہور اور کنیئرڈ کالج کے باہر آپکو ایسے کئی ملنگ ملیں گے جنہیں ایسا پھرنے کا قانونی تحفظ حاصل ہے وگرنہ قانون حرکت میں نہ آتا۔پولیس والے تو صرف ہجڑوں اور خسروں کو پکڑتے ہیں ۔
نجانے اس معاملے میں بھی ہماری بھارت سے کیوں مقابلہ بازی ہے یہ تو بھلا ہو ہمارے سنسر بورڈ، فلموں اور ڈراموں کا جنکی تربیت کی بدولت اور رحمن ملک کی کمال شفقت کا کہ جنہوں نے پاسپورٹ اور ویزہ لگوا کر وینا ملک کو انڈیا بھجوا دیا جو پاکستان سے نہ جانے کونسا تیل لی گئی تھی کہ اس نے جاتے ہی ہندوستانیوں کی مالش کرکے انکا سکر چکرا کے رکھ دیا اور ملک کا نام روشن کیا چونکہ بقول دنیا کے مذہب پہ عمل کرنا ذاتی مسئلہ ہے۔لہٰذا ہم مختاراں مائی اور شرمین چنائے کی بات کرتے ہیں ،دنیا نے تو خود کو ننگا کیا ہے انہوں نے پوری قوم کو دنیا کے آگے ننگا کردیا لہٰذا صدر دل بڑا کریں اگر کوئی ان ہیروز کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو دَھنیا پینے والے آپکا کیا بگاڑ لیں گے!