چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل عرفان قادرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے نئے قانون کے تحت وزرائے اعلیٰ کو ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ سرکاری حیثیت سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ نئے قانون کے تحت استثنیٰ بانٹا گیا ہے جبکہ پرانے قانون کے تحت صرف صدراورگورنرزکو سول استثنیٰ حاصل تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیا قانون مفصل ہے اور اس میں کوئی سقم نہیں۔ اس سے عدلیہ کی آزادی بھی متاثر نہیں ہوتی۔ جس پرجسٹس تصدق حسین جیلانی نے استفسارکیا کہ ایسا ہے تو آرٹیکل دو سوچارمیں متبادل الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جرم کی تعریف ہی بدل دی گئی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نئے قانون میں اسکینڈلائزاورتمسخرکے الفاظ شامل نہیں ہیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ وفاق کے وکیل نے نئے قانون میں کئی خامیوں کا اعتراف کیا ہے۔ درخواستوں پراٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں اورفریقین کی جانب سے جواب الجواب جمع کرادیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہےجوسہ پہرساڑھے تین بجے سنایا جائے گا
توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں پردلائل مکمل,عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، سہ پہرساڑھے تین بجے سنایا جائے گا۔
Aug 03, 2012 | 13:53