سپریم کورٹ نےتوہین عدالت بل دو ہزار بارہ کالعدم قرار دے دیا۔ پارلیمنٹ آئین کےمخالف کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے توہین عدالت قانون کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے بعد چیف جسٹس نے محفوظ کیا گیا اکیس صفحات پرمشتمل مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت قانون غیر آئینی اور غیرقانونی ہے، یہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ کسی قانون کے ذریعے عدلیہ کے آئینی اختیارات کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ نیا قانون عدلیہ کےاختیارات کم کرنے کی کوشش ہے اور اسکی متعدد شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ توہین عدالت آرڈیننس دوہزار تین کا قانون پہلےسےموجود ہے، نئے قانون کو اس کے وجود والے دن بارہ جولائی سے ہی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ توہین عدالت قانون میں کسی کو بھی سزا سنانے کا اختیاررکھتی ہیں، آئین اس کی اجازات دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے توہین عدالت قانون دوہزاربارہ کی سیکشن تین کے ذیلی شقوں ایک سے گیارہ تک کو بھی مکمل طورپرکالعدم قراردیا۔ ان شقوں میں عوامی عہدوں پرفائض افراد کواستثنی سے متعلق قانون سازی کی گئی تھی۔ اپیل کےلیے مدت تیس روز سے بڑھا کرساٹھ روزتک کرنے کی قانون سازی کو بھی عدالت عظمی نے کالعدم قراردیتےہوئےکہا کہ اس سے فراہمی انصاف کےعمل میں تاخیرکرنے کی کوشش کی گئی ہے، مقدمات ٹرانسفرکرنےکےحوالےسےموجود شقوں پرعدالت عظمی نے قراردیا کہ یہ چیف جسٹس آف پاکستان کا استحقاق ہے، مقننہ اس پرقانون سازی کی مجازنہیں۔ فیصلے سناتے وقت تمام درخواست گزارکمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادراوروفاق کے وکیل شکورپراچہ اس موقع پرکمرہ عدالت میں نہیں آئے۔ فیصلہ سنانے سے قبل اٹارنی جنرل عرفان قادرنے دوسرے روزدلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے عدلیہ اورحکومت کوہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنا ہوگا، میڈیا پرنئے قانون پر اس قدرتنقید ہوئی کہ ابتدا میں میری بھی توہین عدالت قانون سے متعلق رائے اچھی نہیں تھی، مگرقانون پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ قانون برا نہیں ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے اٹارنی جنرل کے دلائل پرناراضگی کا اظہارکرتے ہوئےکہا کہ عدالتیں مک مکائو نہیں کرتیں، عدالتیں غیرجانبدارہوتی ہیں، کسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرنہیں چلتیں، نئے قانون پرغوروفکرکیا جاتا توخامیاں دورہوسکتی تھیں، سابقہ قانون میں توہین عدالت کی تعریف موجود تھی جوموجودہ قانون سے ختم کردی گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن