آج کا بیت المقدس

پاکستان کو تاریخِ اسلام میں اپنا متعین کردہ کردار ادا کرنے کیلئے صرف ایک اور علامہ اقبال ؒ کی یا پھر ایک اور محمد علی جناح ؒ کی ہی ضرورت نہیں ¾ اسے ایک ایسے سالارِ قافلہ کی بھی ضرورت ہے جس کے اندر بیت المقدس کو غیروں کے قبضے سے آزاد کرانے کی ویسی ہی ناقابل ِ تسخیر امنگ اور تڑپ ہو جیسی امنگ اور تڑپ صلاح الدین ایوبی ؒمیں تھی۔یہاں بات میں نے بیت المقدس کی کی ہے تو وضاحت ہوجائے کہ بیت المقدس سے میری مراد کیا ہے۔
ایک بیت المقدس تو وہ ہے جسے حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں حضرت عمرو العاصؓ نے قیصرِروم کی عملداری سے آزاد کرایا تھا ¾ جسے بارہویں صدی میں صلیب بردار لشا کر نے بزورِ شمشیر مسلمانوں سے چھین لیا ¾ جسے صلیبی فاتحین نے مسلم خون کا ایسا غسل دیا کہ اسکے تصور تک سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ¾ جسے نوے برس بعد گمنامی کے اندھیروں سے بجلی کی چمک بن کر اٹھنے والے صلاح الدین ایوبی ؒ نے دوبارہ پرچم ہلال کی عملداری میں لے لیا اور جو صدیاں گزرنے کے بعد آج پھر اپنی غلامی اور محکومی پر ماتم کناں ہے لیکن میں جس بیت المقدس کی بات کررہا ہوں وہ دورِ حاضرمیں اسلام آباد کے نام سے قائم ہوا اور جسے اگرچہ ویسی محکومی اور ویسی غلامی کا سامنا تو نہیں جیسی غلامی اور جیسی محکومی کا سامنا فاروق اعظم ؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس کو ہے لیکن جو کئی دہائیوں سے محکومی اور غلامی کی ایسی غیر مرئی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جو اسکے حکمرانوں کو کوئی فیصلہ اُس قوم کی امنگوں کیمطابق کرنے نہیں دیتیں جس قوم نے آزادی کا مفہوم علامہ اقبال ؒ کی شاعری سے اور خود مختاری کا مطلب محمد علی جناح ؒ کی قیادت سے سیکھا تھا۔
میں نے یہاں ” قوم “ کی اصطلاح انسانوں کے اس جمِ غفیر کو سامنے رکھ کر استعمال نہیں کی جو مملکت ِ خداداد پاکستان کے طول و عرض میں بستے ہیںاور اپنے آپ کو خدا اور اسکے رسول کا نام لیوا کہتے ہیں۔ یہاں قوم کی اصطلاح استعمال کرتے وقت میری چشمِ تصور کے سامنے وہ عظیم لوگ ہیں جنہوں نے 622میں ہجرت کے لفظ کو غیر فانی تقدس دے کر ایک ایسی منزل کارخ کیا تھا جو مدینہ کے نام سے انسانی تاریخ کا عظیم ترین سنگ میل بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن سے مخاطب ہو کر سرکار ِ دو عالم )ﷺ(نے فرمایا تھا ” اب تمہارا دین مکمل ہوگیا ہے۔ اب تم ایک امت بن گئے ہو۔ اب تمہارے درمیان رنگ و نسل اور حسب نسب کا کوئی فرق قائم نہیں رہا۔اب تمہارا جینا اور مرنا خدا کیلئے ہوگا۔ گواہی دو کہ جو عظیم ذمہ داری میرے رب نے میرے سپرد کی تھی وہ میں نے پوری دیانت اورامانت کے ساتھ ادا کی ہے جو پیغام باری تعالیٰ نے آپ تک پہنچانے کیلئے مجھے اِس دنیا میں بھیجا تھا ¾ وہ آپ تک پہنچ گیا ہے۔ گواہی دو کہ یہ پیغام تم نے پوری کاملیت کے ساتھ سن اور سمجھ لیاہے۔اور عہد کرو کہ یہ پیغام تم دنیا کے طول و عرض اور اپنی آنیوالی نسلوں تک پہنچاﺅ گے۔ اور تاقیامت روئے زمین پر خدا کی حاکمیت قائم کرنے کی جدوجہد کرو گے۔“
یہ الفاظ پڑھ کر آپ کا ذہن یقینا آپ کے آخری خطبے کی طرف جارہا ہوگا۔ آپکے ذہن میں اس قوم کی گواہی بھی لفظوں کا روپ دھار کر گونج رہی ہوگی جس سے ہادی برحق مخاطب تھے۔ وہ قوم زمان و مکان کی قید سے آزاد تھی۔ پورا کرہ ءارض اُس قوم کا وطن تھا۔ وہ قوم آج دنیا کے چپے چپے پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اس کا ایک گھر یہ بھی ہے جسے پاکستان کہتے ہیں۔اور یہ گھر اس کے ہر دوسرے گھر سے اس لئے منفردہے کہ اس کی تعمیر کرتے وقت اسکے معماروں کے ذہنوں میں مدینہ نام کا شہر اور مدینہ نام کی ریاست تھی۔
علامہ اقبال ؒنے اس گھر کا نقشہ بنایا تھا اور قائداعظم ؒ نے اسے تعمیرکیا تھا۔قومِ ہاشمی کے جانشینوں کیلئے اسلام آباد مدینہ کا تسلسل ہے ۔ میں نے اسلام آباد کو آج کا بیت المقدس اسی تناظر میں قراردیا ہے۔ یہ معاملہ ہماری شناخت کا ہے۔ اور جب تک ہم اپنی شناخت کے بارے میں پیدا کئے جانیوالے ہر ابہام کو فکر وعمل کی مشترکہ قوت کے ساتھ مسترد نہیں کرینگے ہم مسائل کے طوفانوں میں گھرے رہیں گے ۔ غلامی اور محکومی کی جن غیر مرئی زنجیروں میں جکڑے ہونے کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے وہ صرف اور صرف اس صورت میں ٹوٹ کر گرینگی کہ جس ابہام کا شکار ہماری شناخت کو بنایا جارہا ہے اسے آہنی قوت کیساتھ ختم کردیں۔
بات کا آغاز میںنے علامہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒ کے ذکر سے کیا تھا۔ ہمیں اپنی شناخت کے بارے میں روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہونے کیلئے ایک اور علامہ اقبالؒ یا ایک اور محمد علی جناحؒ کی ضرورت نہیں ¾ ضرورت صرف انکی واضح کردہ سوچ کو مشعلِ راہ بنانے کی ہے۔ میں اس ضمن میں مفکر ِ پاکستان علامہ اقبال ؒ کے صرف دو اشعار یہاں درج کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ ۔۔۔
بے خبر تُو جوہرِ آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اور دوسرا یہ کہ۔۔۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے
اس ضمن میں بانیءپاکستان قائداعظم ؒ کے یہ الفاظ بھی میں یہاں درج کروں گا۔۔۔
” ہم نے پاکستان کی جدوجہد زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کی تھی۔ ہمارا مقصد یہاں ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو اسلام کے فلاحی تصور کی منہ بولتی تصویر ہو۔“
بات جب اسلام کے فلاحی تصور کی یا اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کی ہوتی ہے تو لازمی طور پر ذہن آنحضرت کے آخری خطبے کی طرف جاتا ہے جس میں خدا کی حاکمیت کا بھرپور نقشہ کھینچا گیا تھا۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا کی حاکمیت کا قیام ایک ایسے نظام کے ذریعے ممکن ہے جس میں ” سرمائے “ کو ایک معبود کادرجہ حاصل ہو۔ اسی سوال کے بطن سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ” پاکستان کا حقیقی مستقبل خدا پرست اسلام میں ہے یا سرمایہ پرست جمہوریت میں؟“
اس ضمنی سوال سے مطلب یہ نہ لیاجائے کہ میں جمہوریت کے سامنے کوئی سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہوں۔ جمہوریت کا مطلب اگر سلطانی ءجمہور ہے تو خدا کی زمین پر خلقِ خدا کی ہی سلطانی قائم ہونی چاہئے۔ مگر سرمایہ کی قوت سے چند سو امراءآپ کا ووٹ حاصل کرلیں توکیا جمہورکی سلطانی قائم ہوجاتی ہے؟کیا جمہور کو یہ اختیار یا حق حاصل ہے کہ وہ حاکمیت کا اختیار ایسے لوگوں کے حوالے کردیں جو اپنے آپ کو احکاماتِ خداوندی سے آزاد سمجھتے ہوں؟
 اگر بات اسلامی فلاحی مملکت کے قیام کی ہورہی ہو تو کیا اس منزل تک رسائی یا اس مقصد کا حصول ایک ایسے نظام کے تحت ممکن ہے جس میں خدا کی حاکمیت کو چیلنج کرنیوالی جماعت یا جماعتوں کو بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کے ویسے ہی مواقع حاصل ہو ں جیسے مواقع خدا کی حاکمیت پر ایمان رکھنے والوں اور اس کا نفاذ کرنے کے خواہشمندوں کو حاصل ہوتے ہیں؟ ایک اسلامی فلاحی مملکت میں ” جمہور “ کا مطلب ” اُمتِ محمدی “ کے سوا اور کوئی نہیں۔ فتح مکہ کے بعد کفار مکہ ”جمہور “ کا حصہ نہیں رہے تھے ۔ فتح حجاز کے بعد تمام عرب ” قومِ ہاشمی “ بن گئے تھے۔دوسرے الفاظ میں جہاں قومِ ہاشمی موجودہوگی وہاں جمہور جماعتوں میں بٹے نہیں ہونگے۔ اختلافِ رائے ہوگا تو ایک ہی جماعت کے اندر ہوگا۔ اقتدار کیلئے مسابقت ہوگی تو ایک ہی جماعت کے اندر ہوگی۔
میرے ذہن میں ایک ایسا پاکستان ہے جس پر حکومت اسلام کی ہو۔ یہاں اسلام کا ذکر میں صرف ایک دین کے طور پر نہیں‘ ایک نظریہ اورایک جماعت کے طورپر کررہا ہوں۔ اس جماعت میں بے شمار معاملات پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ مگراس اختلافِ رائے کی کوکھ سے نئی جماعتیں جنم نہیںلینی چاہئیں۔ بنیادی بات شناخت کی ہے۔اگر ہماری شناخت اسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں تو پھر کیا ہمیں ان تمام اسباب اورعوامل کا خاتمہ نہیںکر دینا چاہئے جو اس شناخت کے راستے میں حائل ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جمہوریت کو نئی فکر اور نئی شکل دیں۔ اور یہ کام کوئی صلاح الدین ایوبی ہی کرسکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس رب العزت نے اقبال ؒ کو پیدا کیا ¾ جناح ؒ کو پیدا کیا وہ رب العزت اسلام آباد کو غیر وں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے صلاح الدین ایوبی ؒ کو بھی پیدا کرے گا۔صلاح الدین ایوبیؒ کی ضرورت صرف پاکستان کو ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کو ہے۔۔۔!

ای پیپر دی نیشن