ہفتہ ‘ 24 رمضان المبارک ‘ 1434ھ ‘ 3اگست2013

ایم کیو ایم سے منگنی کے بعد نکاح ہونا تھا مگر ہم نے رشتہ ہی توڑ دیا، (ن) لیگی رہنما عرفان اللہ مروت !
مسلم لیگ (ن) نے ایم کیو ایم سے جو منگنی کی کراچی کے عوام کو اسکی بڑی قیمت چکانا پڑی۔ لیکن اگر نکاح ہو جاتا ہے تو پھر اگلے پانچ سال کراچی کے عوام کا محافظ کون ہو گا؟ یہ سب جانتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ غالباً اس رشتے کے ہی خلاف تھے اسی لئے تو انہوں نے منگنی کے بعد ہی واویلا شروع کر دیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کراچی کی قیادت صدارت ملنے کے باوجود اپنی پارٹی کے اس فیصلے سے نالاں تھی۔ اسی لئے گذشتہ روز میاں نواز شریف کی کراچی آمد پر سلیم ضیاءکے علاوہ کوئی قدآور شخصیت میاں صاحب کے دائیں بائیں کھڑی نظر نہیں آئی۔
(ن) لیگ کے علاوہ اس منگنی پر سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور ممتاز بھٹو بھی ناخوش تھے۔ پیر پگاڑو تو اس طرح بگڑے تھے کہ انہوں نے تب مسلم لیگ (ن) کے وفد کو ملاقات کے لئے گھاس ہی نہیں ڈالی تھی اور اسحاق ڈار سرخ چہرہ بنائے واپس لوٹ آئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنان بھی قیادت پر ہی لعن طعن کرنے لگے تھے لیکن پھر خفیہ ہاتھ نے رانا ثنااللہ سے مونچھوں کو تاﺅ دلواتے ہوئے ہَوا میں دو چار باتیں کہلوائیں جس پر ایم کیو ایم والے بھی پریشان ہو گئے ہیں، اب عرفان اللہ مروت نے رشتہ توڑ کر مہر ثبت کر دی ہے اور کراچی میں انکے بیان کے بعد .... ع
کہیں خوشی کہیں غم
والی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسحق ڈار (ن) لیگی رحمن ملک کا کردار ادا کرکے نائن زیرو پر پھولوں کے ہار پہنتے رہیں گے اور نیرنگی سیاست کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ صدارتی الیکشن کی طرح میاں صاحب شاید ووٹ دینے پر ایم کیو ایم کے ”ممنون“ ہو جائیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی ....
نیرنگی سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
صدارتی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہُوا اور ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ بھی اس کی امید ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
فخر الدین جی ابراہیم قوم کو بتائیں مسلم لیگ (ن) الیکشن کیسے جیتی : لطیف کھوسہ !
فخرو بھائی نہیں بلکہ قوم کا بچہ بچہ بتانے کیلئے تیار ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو صدر زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ رینٹل، توقیر صادق، سابق چیئرمین ای او بی آئی ظفر گوندل اور آصف ہاشمی کی لوٹ مار نے الیکشن جتوایا۔ اگر آپ کی پارٹی ”لُٹو تے پُھٹو“ کا نعرہ لگا کر قومی خزانے کو ”چونا“ نہ لگاتی تو مسلم لیگ (ن) عام الیکشن میں صرف حصہ بقدر جُثہ ہی وصولی کرتی لیکن جب عوام نے پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی طرف دیکھا جن کے لبوں پر ایک ہی بات تھی ....
بھید کِنے کھولنے وچو وچی کھائی جاﺅ
اتوں رولا پائی جاﺅ
تب عوام نے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر لوٹنے اور پُھٹنے والوں کو صوبہ بدر کر دیا۔ لطیف کھوسہ کو مسلم لیگ (ن) کی جیت پر اپنی منجھی کے نیچے ڈانگ مارنی چاہئے کیونکہ بڑے بڑے اژدھا تو وہاں چھپے پڑے ہیں، اب اگر سندھ میں دوبارہ سابقہ روایت کو دہرایا گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پیپلز پارٹی پورے سندھ سے سمٹ کر صرف گڑھی خدا بخش تک محدود ہو جائیگی اور انکی جگہ لینے کیلئے ادھر خان بابا بھی پشاور سے چل پڑے ہیںاور کراچی سے عارف علوی نے سیٹ حاصل کر کے وہاں پر خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔
اب دیکھیں پیپلز پارٹی والے اسکے ڈر سے سدھرنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر مصالحتی دستر خوان دراز کر کے (ق) لیگ کی طرح قومی پارٹی سے گھر کی پارٹی بنتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
فضل الرحمن 2 ماہ سے وزارت کیلئے حکومت کے ترلے کر رہے ہیں : صوبائی وزیر خیبر پی کے !
نئی حکومت بنے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ صوبہ خیبر پی کے میں چوہے بلی کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف جبکہ عمران خان جے یو آئی کو سیاسی جماعت تو دور کی بات ہے ایک دوسرے کو مسلمان تصور کرنے پر بھی راضی نہیں۔ سیاستدانوں کے اِٹ کھڑکے سے ان کا اپنا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ ملک کا ہی نقصان ہو گا اور ہمارے محبِ وطن سیاستدانوں کے نزدیک ملک و قوم کا نقصان کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔
 1971ءمیں بھی سیاست دانوں کی نااہلیوں اور غلطیوں کے باعث ملک دولخت ہوا تھا۔ تب قوم کے دل چھلنی ہو گئے تھے لیکن مفاد پرست سیاست دان اقتدار سے چمٹے رہے اور ملک کا ایک حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا اور ذمہ داروں کی پیشانیوں پر شرمندگی کی ایک سلوٹ بھی نظر نہیں آئی۔
مولانا جُبّہ و دستار تو اپنے بیٹوں کو قومی اسمبلی کے ٹکٹ دیکر موروثی سیاست کو پختہ کر رہے ہیں جبکہ خان صاحب موروثی سیاست کے چنگل سے قوم کو آزادی دلوانے کے درپے ہیں۔ قوم تبدیلی کی خواہاں ہے لیکن ابھی تک کہیں سے تبدیلی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی بس گڑھے مُردوں کو اکھاڑا جا رہا ہے لیکن قوم مطمئن ضرور ہے کہ اب مستقبل میں ان اندھیروں سے جان چھوٹ جائیگی اور روشنی کا دور دورہ ہو گا ....
اب ہَوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیّے میں جان ہو گی وہ دیّا رہ جائے گا

ای پیپر دی نیشن