ایک معاصر نے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سے متعلق ایک این جی او کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات کئے ہیں۔ انگریزی روزنامے نے کہا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ تک رسائی کیلئے مختلف ذرائع استعمال کئے گئے۔ جریدے نے کمیشن کے ایک ممبر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ندیم احمد پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے Save The Children نامی این جی او کو رپورٹ میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے معاونت فراہم کی اور رپورٹ کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ بتایا گیا ہے کہ جنرل ندیم نے مذکورہ این جی او کی کمیشن رپورٹ تک رسائی اس وقت ممکن بنائی جبکہ یہ رپورٹ ابھی وزیراعظم کو بھی پیش نہیں کی گئی تھی۔ امریکہ کی بعض معاملات میں مداخلت سے آنکھیں نہیں چرائی نہیں جا سکتیں لیکن ہر معاملے میں امریکہ کو گھسیٹنا ایک فیشن بن گیا ہے، بعض حلقے زیبِ داستان کیلئے بھی پاکستان کے ہر مسئلے میں امریکہ کا ذکر ضروری خیال کرتے ہیں ۔ لیکن اگر رپورٹ میں ایک این جی او کو بچانے کیلئے کمیشن کے ایک ممبر نے انکی معاونت کی‘ تو اس میں تشویشناک بات ایک پاکستانی کا ریاست کے مفاد سے زیادہ ایک این جی او سے وفاداری دکھانا ہے۔روزنامے کی رپورٹ میں جو الزامات سامنے آئے ہیں خود جنرل ندیم کو ان کا جواب دینا چاہئے۔ اگر مذکورہ انکشافات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف جنرل ندیم کی شخصیت بلکہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی مشکوک ٹھہرے گی جو تاحال سرکاری سطح پربھی جاری نہیں کی گئی۔ ایسے حساس معاملے میںجو رپورٹ الجزیرہ نیٹ ورک نے لیک کی جس کی صحت سے سرکاری سطح پر انکار نہیں کیا گیا۔ ایبٹ آباد کمیشن نے بظاہر بڑی عرق ریزی سے رپورٹ تیار کی جسکی حیثیت انکشافات کے بعد متنازعہ ہو سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے الزامات کی تحقیقات کی جائیں اگر یہ درست ثابت ہوں تو ذمہ داروں کیخلاف متعلقہ دفعات کے تحت کیس دائر کرایا جائے۔ اگر انکشافات اور الزامات درست ثابت نہیں ہوتے تو اداروں اور شخصیات کو بدنام کرنے والوں کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔