عُمرے پر تشریف لے جانے سے قبل ،وزیرِاعظم نواز شریف نے کراچی میں،مزارِ قائد اعظمؒ پر حاضری دی ۔ایم کیو ایم کے گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت اُلعباد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیرِاعلیٰ، سیّد قائم علی شاہ اُن کے ساتھ تھے ۔وفاقی حکومت میں شمولیت کے لئے پَر تول رہے ،مولانا فضل الرحمٰن ،شاید اِسی لئے وزیرِاعظم کے ہمراہ عُمرے پر نہیں گئے کہ وہ، مزارِ قائدِاعظمؒ پر نہ جانے کے لئے کون سا عُذر ِ لنگ یاعُذرِ سالم تلاش کرتے؟۔مختلف نیوز چینلوں کو دِکھایا جا رہا تھا کہ ۔ڈاکٹر عشرت اُلعباد اور سیّد قائم علی شاہ ۔وزیرِاعظم کے دائیں اور بائیں کھڑے ہیں اور وزیرِاعظم میڈیا سے مُخاطب ہوکر ،مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ۔” ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیںہے ،سب مِل کر چلیں گے تو، مُلک آگے بڑھے گا “۔
سیانے کہتے ہیںکہ۔” ہر بات کاایک وقت ہوتا ہے “۔اور یہ کہ ۔” وقت پر گایا جانے والا راگ ہی اچھا ہوتا ہے “۔ اور یہ بھی کہ ۔” بے وقت کا راگ یا راگنی گانا ،اچھا نہیں ہوتا ۔بد شگونی ہوتی ہے“۔ اسی اصول یا ضابطے کی بنیاد پر ،ضرورت ہے کہ ،مختلف سیاسی لیڈروں اور جماعتوں میں ایک ۔” ضابطہ ءاخلاق“ ۔پر اتفاق ہو جانا چاہیے کہ وہ ۔کب اور کِس وقت اورکتنی مقدار میں ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالیں اور کب اور کِس وقت نہ اُچھالیں؟ ۔ جب راگوں اور راگنیوںکے گانے کا وقت مقرر ہو سکتا ہے تو ،سیاستدانوں کے، ایک دوسرے پر، کیچڑ اُچھالنے کا وقت کیوں نہیں مقرر کِیا جا سکتا ؟۔سینٹ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جب حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے ارکان، ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں تو، چیئر مین سینٹ اور سپیکر صاحبان ۔کیچڑ افشانی“۔ کو روکتے ہیں،لیکن عام جلسوں ، پریس کانفرنسوں، نیوز چینلوں پر ،کسی اینکر پرسن کو مُنصف بنا کر ،جب متحارب سیاستدان ایک دوسرے پر ،کیچڑ اُچھالتے ہیں تو ،کیچڑ کے کچھ چھینٹے۔ اینکر پرسن کو بھی اپنی زد میں لے لیتے ہیں ۔پھر اینکر پرسن بھی ،غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے،اپنی طرف سے دونوں طرف، چھینٹے (کیچڑ کے) اُچھالتا ہے۔
دورِ متحارب سیاستدان جب ،ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالیں اور اُچھالتے چلے جائیں تو، دونوں طرف کے کارکنوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اپنے قائدین کو ۔ ”مکرر ارشاد۔ یا ۔ اِسے پھر دہرائیے“۔ کی درخواست کرتے ہیں۔ پھروہ۔۔۔
”کیچڑ میں، کوڑی دیکھیں تو، دانتوں سے لیں اُٹھا“
کی پوزیشن میں رہ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔عام انتخابات کے بعد جب (نظر یہءضرورت کے تحت)دُشمنی کی حد تک، مخالف سیاستدان ایک دوسرے سے ۔” گھُٹ گھُٹ جپھّیاں “ ۔ڈال رہے ہوتے ہیں تو ، ٹیلی وژن پر، یہ منظر دیکھنے والے، دونوں طرف کے کارکن، اپنی اپنی جگہ کھِسیانے ہو رہے ہوتے ہیں۔اُسی طرح جب، ایک دوسرے کے مسلک کو کُفر قرار دینے والے عُلماءحضرات کے معانقے کے بعد اُن کے ایک مقتدی بُزرگ سے عرض کِیا گیا کہ ۔” حضور!۔آپ گالیاں بہت دیتے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ یہ عادت چھوڑ دیں؟“۔ اُس بُزرگ نے۔ لفظ گالی کو ۔ایک موٹی سی گالی دے کر کہا ۔” پھریہ گالی بنائی کیوں گئی ہے؟۔ ظاہر ہے کہ دینے کے لئے“۔
ہر زبان کی لُغت۔ (Dictionary)۔ میں سب کی سب گالیاں، التزام سے درج ہوتی ہیں۔ سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب، جناب حنیف رامے(مرحوم)۔نے ایک دِن مجھے بتایا کہ ۔” کچھ شُرفاءکا ایک وفد میرے پاس آیا اور کہا کہ ۔”کیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ ،وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے ،اپنے اختیارات استعمال کر کے ۔کم ازکم پنجاب کی حدتک،ہر زبان کی لُغت سے گالیاں نکلوا دیں؟۔کیونکہ جب کسی لفظ کی تلاش میں ،طلبہ اور طالبات ،لُغت کھولتے ہیں تو ،اُن کی نظر ،لُغت میں درج گالیوں پر بھی پڑ جاتی ہے، جِس سے اُن کا اخلاق خرا ب ہو سکتا ہے ؟“۔مَیں نے کہا کہ ۔” گالیاں تو نسل در نسل۔"Oral tradition" ۔کے طور پر چلی آ رہی ہے ۔لُغات سے نکال بھی دی جائیں تو بھی لوگ ایک دوسرے کو گالیاں تو دیتے ہی رہیں گے “۔ مناسب یہ ہے کہ پہلے معاشرے کو درست کِیا جائے اور زبانی ایک دوسرے کو گالی دینے کا رواج ختم ہو جائے تو ،لُغات میں بھی گالیوں کے اندراج کی ضرورت نہیں رہے گی “۔
انگریزوں نے ،گالیوں کی الگ لُغت تیار کر رکھی ہے ۔جو بھی ضرورت مند چاہے گردن جھُکائے اور دیکھ لے ۔انگریزی میں کیچڑ اُچھالنے کے لئے ۔" Mud- Slinging" ۔ کی ترکیب استعمال ہوتی ہے ،لیکن عجیب بات ہے کہ، انگریز ۔شراب کا جام ،چڑھاتے وقت ،خیر سگالی اور خوش طبعی کے طور پر ،ایک دوسرے سے کہتے ہیں ۔ " Here's Mud In Your Eye "۔ اگرکوئی انگریز ۔ مشہور فلم سٹار مِیرا ،سے ۔(جو Baby Englishبولنے میں بھی مشہور ہیں)۔ کسی خاص ماحول میں ، یہ جُملہ کہے تو اُن کا پنجابی میں،کچھ اِس طرح کا ردِّ عمل ہو گا کہ ۔” تُوں میری اِک اکھ وِچ ۔Mud ۔پانویں گا،تے میں تیریاں دونواں اکھّاں وِچ ۔Mud۔پا دیاں گی!“۔
کیچڑ کو ۔” گارا“۔ بھی کہا جاتا ہے ۔عجیب بات ہے کہ ۔” گارا“۔ ایک راگنی کا نام بھی ہے۔پس ثابت ہُوا کہ جب ۔” گارا راگنی “۔ گانے کا وقت مقرر ہے تو، ایک دوسرے پر گارا اُچھالنے کا بھی وقت مقرر ہونا چاہیے ۔صدر ایوب خان کے دَور میں طنز یہ/مزاحیہ ہفت روزہ۔” نمکدان“۔ کے ایڈیٹر جناب مجید لاہوری (مرحوم) نے کہا تھا کہ ۔۔۔
”رِشوت کی اِینٹیں ،رِشوت کے ،گارے
اپنے وطن میں، سب کچھ ہے، پیارے“
اینٹیں بنانے کے لئے ،پہلے مٹّی کو گوندھ کر گارا تیار کیا جاتا ہے ۔ اینٹ سے اینٹ بجانا ۔ایک ضرب اُلمِثل ہے، جِس کا مطلب ہے ۔تباہ کرنا ، برباد کرنا ۔پُرانے زمانے میں جب کوئی حملہ آور،کوئی مُلک فتح کرتا تھا تو ،اُس مُلک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا تھا ،آج کے دور کے مسائل زدہ عوام کی حالتِ زار کو ، حضرت داغ دہلوی نے بہت پہلے ہی، قلم بند کر دیا تھا ،جب انہوں نے کہا کہ ۔۔۔
” لشکرِ غم نے کِیا ، کعبہء دِل کو ، برباد
اِینٹ سے اِینٹ ،بجا دی ہے ،خُدا کے گھر میں“
دِ ن میں وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا کہ ۔” ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے“،لیکن اُسی شام ایک نیوز چینل کو، انٹر ویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے ،اپنے دونوں ہاتھ، اپنے دماغ پر رکھتے ہوئے ،عمران خان کو۔” دماغی مریض“۔ کہا اور اُن کے ساتھیوں کو ۔” کل کے لڑکے“۔مولانا جوشِ خطابت میں ۔ لفظ ۔”بچپنا “۔کو ۔” بچپن پنا “۔ بھی کہہ گئے ۔مولانا کے شاگردانِ رشید کیا سوچیں گے ؟۔