ایک عہد تمام ہوا …!

میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کریم کا احسانِ عظیم اور خصوصی انعام ہے کہ ایک شخص جو ساری زندگی اس مملکت خُداداد کے اساسی نظریے کا پاسباں بنا رہا، جو پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپر رہا جو اپنے ناتواں دل کے ساتھ اسلام، پاکستان، نظریہ پاکستان اور قائد اور اقبال کے افکار کے ساتھ لازوال وابستگی کا مظہر بنا رہا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کے ارشادِ نبوی ﷺ پر کاربند رہا اُسے موت ملی تو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو جو بڑی ہی تکریم والی رات ہے ،جو نزول قرآن کی بابرکت شب ہے،جو قیامِ پاکستان کی مبارک ساعت ہے۔ جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور نے اس باسعادت رات کی طلوع فجر سے قبل کی اُن مبارک ساعتوں میں میں داعی اجل کو لبیک کہا جب فرشتوں اور اُنکے سردار روح الامین علیہ السلام کا اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی بھیجنے کے لیے زمین پر نزول ہوتا ہے ۔ یقینا ڈاکٹر مجید نظامی جو آٹھ سے زائد دہائیوں پر مشتمل طویل زندگی میں سر خرو رہے تو آخرت کے سفر پر روانہ ہوئے تو مالکِ حقیقی نے لیلتہ القدر کی مبارک ساعتوں میں موت دیکر ان کو سرفراز کیا اللہ کریم انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُنکے درجات بلند کرے۔ ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم و مغفور کی رحلت سے صحافت کی تاریخ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک عہد تمام ہوا۔ وہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر رہے باون ترپن سال کا یہ طویل عرصہ بذاتِ خود کچھ کم مدت نہیں لیکن نصف صدی سے زائد اس عرصے میں کیا کیا نشیب و فراز آئے ، کیا کیا معرکہ آرائیاں ہوئیں، جابر سلاطین کے سامنے کلمہ حق کی کیا کیا شہادتیں دینی پڑیں ، کیا کیا مراحل شوق طے ہوئے، ’’نوائے وقت‘‘ کو کہاں سے کہاں پہنچایا ، ’’نوائے وقت‘‘ کی ایک آزاد، باوقار اور مقتدر قومی اخبار کی جو حیثیت تھی اسکو کیسے مستحکم کیا ، ’’نوائے وقت ‘‘ گروپ آف پبلیکیشنز کے تحت ڈیلی ’’دی نیشن‘‘، ہفت روزہ ’’ندائے ملت ‘‘، ، ہفت روزہ ’’فیملی میگزین‘‘ اور ماہانامہ ’’پھول‘‘ جیسے معتبر، مستند اور مقبول اخبارات اور جرائد کا اجراء کیسے کیا ، نیوز چینل ’’وقت نیوز‘‘ کو کیسے متعارف کروایا، اقبال ؒ اور قائد ؒ کے افکار و نظریات کی ترویج اور فروغ کو کیسے اپنی زندگی کا مشن بنایا، جمہوریت اور جمہوری قدروں سے وابستگی کا کیسے ثبوت دیا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کیسے حرز جاں بنایا اور اسکی پاسداری اور چوکیداری کی ذمہ داری کیسے نبھائی ، بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کو قائم کرنے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کیمطابق حل کرنے کے موقف کو کیسے برقرار رکھا، دشمنوں کی سازشوں کے پردے کیسے چاک کیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے پرچم کو کیسے سربلند رکھا ان میں سے ہر ایک بات اور ہر ایک معاملہ اپنے اندر عزم و ہمت ، جرات و بے باکی ، ایمان و یقین اور جذبہ صادق کی ایسی ناقابل فراموش داستانیں سمیٹے ہوئے ہے جو ان باون ،ترپن برسوں کے ایک ایک لمحے ، ایک ایک پل ، ایک ایک گھڑی ، ایک ایک شب و روز اور ایک ایک ماہ و سال کو صدیوں پر بھاری کردیتا ہیں۔
 ’’نوائے وقت‘‘ کے مختلف ادوار میری نگاہوں کے سامنے ہیں مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ ’’نوائے وقت‘‘ نے میری سوچ اور فکر کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اسلام اور نظریہ پاکستان سے وابستگی ’’نوائے وقت‘‘ کی ہی مرہون منت ہے۔ مسئلہ کشمیر ہو یا پاکستان کا ایٹمی پروگرام ،جہاد افغانستان ہو یا پاکستان کے خلاف سازشیں ، کالا باغ ڈیم کا مسئلہ ہو یا پاکستان کے دیگر اندرونی مسائل ان سب کے بارے میں میں سمجھتا ہوں اللہ کریم نے مجھے ایک راست سوچ دی ہے اور اس سوچ کے ابھارنے میں جناب مجید نظامی مرحوم کی ادارت میں چھپنے والے ’’نوائے وقت‘‘ کا اہم کردار ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘کے ذریعے ہی مجھے بہت سارے اچھے لکھنے والو ں کی تحریروں کے پڑھنے کے مواقعے ملتے رہے اس بارے میں انشاء اللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا لیکن ایک دو حضرات کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک زمانے میں ’’م ش‘‘ (میا ں محمد شفیع جو تحریر پاکستان کی ولولہ انگیز جدوجہد کے دور میں لاہور کے ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر تھے ) کی ڈائری کبھی کبھار چھپا کرتی تھی میں یہ ڈائری (کالم) ذوق و شوق سے پڑھتا تھا کہ اس میں تحریک پاکستان سے متعلقہ واقعات و شخصیات کا مستند تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ پھر عبدالقادر حسن کی غیر سیاسی باتیں گاہے گاہے چھپنے لگیں قادر حسن کے انداز تحریر کی سادگی ، بے ساختہ پن ، دیہاتی پس منظر اور اعوان قبیلے سے تعلق اور نظریہ پاکستان سے وابستگی مجھے آج بھی بھاتی ہے کہ میں اس کیلئے جناب مجید نظامی کا ممنون احسان ہوںکہ عبدالقادر حسن سے شناسائی مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے ہی حاصل ہوئی ۔جناب قادر حسن آج بھی ’’نوائے وقت‘‘ سے اپنے تعلق اور جناب مجید نظامی کی رہنمائی کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے ہیں۔
یہاں ’’نوائے وقت‘‘ سے تعلق خاطر کے حوالے سے ایک اور بات کا تذکرہ کرنا بے جانہ ہوگااس بات کو گزرے اگرچہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے غالباً 1969؁ء کا سال اور یحییٰ خان کا دور حکومت تھا جناب مجید نظامی کو کسی وجہ سے ’’نوائے وقت‘‘ کو خیر باد کہہ کرروزنامہ ’’ندائے ملت‘‘ نکالنا پڑا پنڈی میں ’’ندائے ملت ‘‘ کا ڈاک ایڈیشن آیا کرتا تھا مجھے علم تھا کہ ڈاک ایڈیشن میں خبریں باسی اور کچھ پرانی ہوتی ہیں۔ لیکن اسکے باوجود یہ جناب مجید نظامی سے غائبانہ تعلق خاطر تھا کہ میں ’’ندائے ملت‘‘ خرید کر پڑھنے لگااچھا ہوا کہ معاملات جلد ہی درست ہوگئے اور جناب مجید نظامی کا نام ’’نوائے وقت‘‘ کی پیشانی پر دوبارہ چھپنے لگا۔جناب مجید نظامی کی صحافتی خدمات اور نظریہ پاکستان سے انکی لازوال وابستگی کو ایک دنیا مانتی ہے اور اسکی تحسین کرتی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ وہ اس پیرانہ سالی میں کہ جبکہ اُنکے دل کے تین بائی پاس آپریشن ہو چکے تھے نظریہ پاکستان کا پرچم تھامے اسلام اور پاکستان کے حقیقی دشمنوں کیخلاف اس طرح سینہ سپر رہے جیسے کوئی چوبیس پچیس سال کا گھبرو جوان ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب مجید نظامی کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اسلام اور پاکستان کا استحکام رہا اور انکی زندگی کا مشن اقبال اور قائد کے افکار اور نظریہ پاکستان کی ترویج اور اشاعت رہا یقینا وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہو نگے تو اُنہیں کوئی شرم ساری نہیں ہوئی ہو گی۔ …ع
 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ای پیپر دی نیشن