پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں وہاں کی مادری زبان تعلیم کا لازمی حصہ ہے جبکہ پنجاب کی زبان دن بدن نصاب اور تعلیمی اداروں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے پِلاک نے اخبارات کے سینئر ایڈیٹرز سے خصوصی گفتگو کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان کے معتبر اخبار نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر اور منفرد پنجابی شاعر سعید آسی اس سلسلے کے پہلے مہمان تھے جس مےں پنجابی زبان کے شےدائی پروفیسرز، کالم نگار، شاعر اور ادیب مدعو تھے۔ گفتگو کا آغاز اسی بات سے ہوا کہ آج کے دور مےں ہمارا پرنٹ مےڈےا اپنی مادری زبان کی ترقی و تروےج کے لےے کےسے بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔دوران گفتگو جناب سعےد آسی صاحب نے پنجابی زبان سے اپنی اور اپنے ادارے کی محبت کا ذکر بڑے شاندار انداز مےں کےا۔انہوں نے فرماےا کہ مرحوم جناب مجےد نظامی صاحب کو بھی پنجابی زبان سے بہت محبت تھی اور وہ اپنے دفتر مےں اور اپنے ساتھےوں کے ساتھ اکثر و بےشتر پنجابی زبان مےں ہی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجابی زبان کی تروےج کے لےے ضروری ہے کہ ہم سب اس کے لےے خود اپنے آپ کو ذہنی اور عملی طور پر تےار کرےں ۔ بےشک اردو پاکستان مےں رابطے کی زبان ہے مگر اس کے باوجود ملک کی قرےب ستر فےصد آبادی پنجابی سمجھتی بھی ہے اور عام روٹےن مےں ےہ ہی زبان بولتی بھی ہے ۔سعید آسی صاحب نے کہا کہ نوائے وقت کے بارے میں یہ تاثر کہ یہ اردو زبان کی ترقی کے لئے کام کرتا ہے جبکہ پنجابی کے عظیم قلمکار، محقق اور دانشور سبط الحسن ضیغم نے ہمیشہ پنجابی کا مقدمہ نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے پیش کیا اور آج کل بھی اثر چوہان صاحب پنجابی زبان کا عَلم اٹھائے ہوئے ہیں۔ کوئی زبان کم تر ےا بر تر نہےں ہوتی مگر مادری زبان اپنی دھرتی کی مٹی کی خوشبو سے عبارت ہوتی ہے۔ لوک گےت، ماہےے، ٹپے ہمیشہ مادری زبان میں ہوتے ہیں اس لئے اس علاقے کی مخصوص تہذےب و تمدن، طرزِ رہائش کے سچے عکاس ہوتے ہیں۔ جب کوئی بچہ پےدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی ماں کی زبان ہی سمجھتا ہے اور ماں کی بولی ہی بولنا شروع کر تا ہے۔ ماں کائنات کا سب سے سچا اور مضبوط رشتہ ہے ماں جب بولتی تو اس کے لہجے مےں وہ مٹھاس ہوتی ہے جو شہد مےں بھی نہےں ہو سکتی ہے۔ ماں جب اپنے بچے کو اوئے مٹھو ےا ببلو کہہ کر بلاتی ہے جو لطف اور سکون ماں کے ان لفظوں مےں ہوتا ہے وہ بڑے بڑے القابات مےں بھی نہےں ہوتاہے۔ماں وہ رشتہ ہے جس کا احساس ہی باعث سکون و فرحت ہوا کرتا ہے ماں سے پےار کرنے والے لوگ ہمےشہ اپنی ماں بولی زبان بولنے کی کوشش کرتے ہےں ۔کےونکہ ماں بولی ہی اےک اےسا کارگر نسخہ ہے جس کی وجہ سے انسان کی شخصےت، مزاج اور عام طرز زندگی پروان چڑھتی ہے ۔ےہی وجہ ہے کہ دانشوروں صوفےاءکرام اور ولےوں نے ہمےشہ اپنی ماں بولی مےں ہی لوگوں تک اپنا پےغام پہنچاےا جو بالکل ماں کے پےار کی طرح لوگوں کے دلوں مےں اترتا چلا گےا۔صدےاں گزرنے کے بعد آ ج بھی سلطان باھو، خواجہ فرید، بلھے شاہ، شاہ حسین، بابا فرےد، مےاں محمد بخش اور دوسرے صوفےاءکے کلام کو دنیا بڑے فخر سے سنتی اور فےض حاصل کرتی ہے۔
جب کسی قوم سے اس کی مادری زبان چھےن لی جاتی ہے تو اس قوم کی سوچنے سمجھنے کی صلاحےتےں بھی محدود ہو جاتی ہےں۔ہزاروں سالوں کی محبت رواےات کا نچوڑ جو زبان کے لوگوں کا اثاثہ ہوتا ہے اس سے اہل زبان کو دور کر دےا جاتا ہے۔ اور ےہ بدقسمتی ہی ہے کہ ےہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہی ہو رہا ہے ملک پاکستان مےں قانون کے مطابق سب حکومتےں اس عمل کی پابند ہےں کہ وہ بچوں کو سکولوں مےں ابتدائی طور پر ان کی مادری زبان ضرور پڑھائےں۔اور ملک کے تےن صوبوں مےں ےہ عمل بہت پہلے سے جاری ہے ۔مگر نہ جانے کےوں پنجاب جو اےک بڑا صوبہ ہے کے حکمرانوں نے شروع دن سے ہی پنجابی زبان کی تعلےم و ترقی کے لےے کوئی بھی بامقصد اور تعمےری عمل شروع نہےں کےا۔ہم پنجابی وہ بھولے بادشاہ ہےں جن کو مےر، آتش، سعدی، رومی اور دوسرے انگرےز دانشوروں کے بارے مےں تو سکولوں مےں پڑھاےا جاتا ہے مگر مےاں محمد بخش، خواجہ فرےد، بابا بلھے شاہ، سلطان باھو امرتا پرےتم اور دوسرے بہت سے پنجابی کی مشاہےر سے دانستہ ےا نادانستہ طور پر دور رکھا جا رہا ہے ۔ےہ سب اےسے ہےرے اس دھرتی نے جنم دےے ہےں جن کے کلام سے اپنی مٹی اور اپنے انسانوں سے پےار کا درس ملتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر کو دےکھےں ےا باقی ترقی ےافتہ اقوام پر نظر دوڑائےں جن لوگوں نے ترقی کی ہے ان سب نے اپنے تعلیمی نصاب کو مادری زبان سے ہی منسلک کےا ہے ۔اب جبکہ سپرےم کورٹ مےں بھی پنجابی زبان کو پنجاب کے سکولوں مےں لازمی مضمون کے طور پڑھانے کی بحث چل رہی ہے تو امےد کی جا سکتی ہے کہ جلد ہی ہم بھی اپنی مادری زبان کو پھےلتا پھولتا دےکھےں گے۔اس کے لےے ہم پنجابےوں کو اِک مِک ہونا پڑے گا ۔ہمےں اپنے اندر سے ایک قوم کا احساس تفاخر پیدا کرنا ہو گا، صرف اپنی مادری زبان بولنی ہو گی اور صرف اس وقت کسی دوسری زبان کا سہارا لیں جب دوسرا فریق بالکل نہ سمجھ سکتا ہو۔ ہمارے بہت سے بچے صرف انگلش مےڈےم کی وجہ سے اچھی تعلےم سے محروم رہ جاتے ہےں۔ اگر مادری زبان کو ذرےعہ تعلےم بنا دےا جائے تو بہت جلد ملک مےں تعلےم کا معےار بھی بہتر کےا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ سو فےصد تعلےم کا سنگ مےل بھی حاصل کےا جاسکتا ہے۔
پِلاک مےں ہونے والی گل بات مےں اکثر دانشوروں کا ےہی کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا گروپ بنا کر مےڈےا کے سبھی لوگوں کے ساتھ ےہ بات کی جائے کہ وہ بجائے پنجابی زبان کا کوئی علےحدہ اخبار نکالےں ۔سب ادارے اپنے اپنے نےوز پےپرز مےں کم از کم اےک صفحہ پنجابی زبان کے لےے مختص کر ےں۔ کوئی وجہ نہےں کہ بہت جلد ملک مےں پنجابی کلچر کو جو عزت و مرتبہ ملنا چاہئے تھا وہ مل پائے۔ حاضرےن محفل اس بات پر بھی متفق تھے کہ اس حوالے سے مسلسل اور پنجاب کے سبھی شہروں مےں گل بات (ٹاک شوز) کا اہتمام کےا جانا چاہےے۔ ٹی وی چےنلز بھی پنجابی زبان کے حوالے سے چند پروگرام جن مےں عوام کو صوفےاءکرام کا پےغام ہو شروع کر دےں تو ےہ ان کی بھی ماں بولی سے محبت کا اظہار کا بہترےن طرےقہ ہو گا۔