اسلام آباد (آن لائن) مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحاریک کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اس اقدام سے نہ صرف تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی ڈی سیٹ ہونے سے بچ جائیں گے بلکہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملے گا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے 188 اور پیپلزپارٹی کے 46 ارکان قومی اسمبلی تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے والی کسی گیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ عمران خان کی دشمنی کی وجہ سے سیاسی طور پر اکٹھی ہونے والے متحدہ قومی موومنٹ کے 24 اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 14 ارکان قومی اسمبلی تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ مسلم لیگ (ن) بھی تحریک انصاف کے مخالفوں میں سے ہے مگر اس وقت وہ تحریک انصاف کو بچانے کے لئے میدان عمل میں کود پڑی ہے کیونکہ اگر تحریک انصاف کے 27 ارکان اسمبلی ڈی سیٹ ہو گئے تو حکومت کو ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات نہ کرانا پڑیں گے، اگر ایسا ہوا اور تحریک انصاف عام لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو گئی تو ممکن ہے 27 حلقوں کے انتخابات کا دائرہ پورے ملک تک پھیل جائے‘ اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ ن کی حکومت آئینی مدت پوری کرنے میں ناکام ہو جائے گی اور ملک بھر میں مڈٹرم انتخابات ہو سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی چونکہ دھرنے کے وقت سے تحریک انصاف کے ارکان کو اسمبلی میں لانے کے لئے کوششوں میں مصروف تھی اب جبکہ وہ ارکان اسمبلی آ بھی گئے ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی نے نہ صرف انہیں قبول کر لیا ہے بلکہ ان کو نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ جے یو آئی اور ایم کیو ایم نے آئین کے آرٹیکل 64 اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی شق 44 کے تحت تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی تحاریک قومی اسمبلی میں جمع کرا رکھی ہیں قانون کے مطابق سپیکر اسمبلی کا ان پر رائے شماری کرانا ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی چاہتی ہیں کہ دونوں جماعتیں تحاریک واپس لے لیں تاکہ ملک جس میں پہلے ہی بے شمار مسائل ہیں ان میں مزید اضافہ نہ ہو۔ دونوں تحاریک پر 4 اگست کو رائے شماری ہو گی۔ جس میں زیادہ تر امکان یہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی عددی برتری سے ان دونوں تحاریک کو ناکام بنادیں گی۔