برصغیر پاک و ہند کے نامور صحافی ،خطیب و ادیب آغا شورش کاشمیری مرحوم سے زمانہ طالبعلمی میں نیازمندی تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سیاست دانوں کے ہاتھ میں رحم کی لکیرنہیں ہوا کرتی حکمران بننے کے جنون میں ’’ باپ بیٹے اور بیٹا باپ ‘‘ کا خیال نہیں رکھتے اور جب کوئی سیاسی مخالف کسی سیاست دان کی ’’داڑھ‘‘ تلے آجائے تو اس کو اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب اس کو سیاسی طور پر تباہ و برباد نہ کر دے کچھ ایسی ہی صورت حال ’’کپتان‘‘ کے ساتھ دیکھنے میں آرہی ہے جو پچھلے دو سال سے سیاسی افق کی بلندیوں پر محو پرواز ہیں کسی کو خاطر میں نہیں لارہے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ان کے منہ میں جو آیا انہوں نے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونے والوں کو سنا دیا انہوں نے کتاب ’’ سیاسیات‘‘میں نئے نئے استعارے متعارف کرائے ان کی تقاریر سننے والے ’’کانوں ‘‘ کو ہاتھ لگاتے تھے انہوں نے نہ صرف پوری پارلیمنٹ کوبالعموم اور قومی اسمبلی کو بالخصوص اپنا ہدف بنائے رکھا اور اسے’’ جعلی اسمبلی ‘‘ کے طعنے دیتے رہے اور پھر استعفوں کے باوجود اسی اسمبلی میں آ کر بیٹھ گئے جسے وہ عوام کی نمائندہ تصور نہیں کرتے تھے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ سپیکر سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کے ارکان کو ان کی غیر حاضری کا معاوضہ بھی ادا کردیا جب ’’غیر حاضر‘‘ ارکان نے لاکھوں روپے وصول کر لئے تو سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف پر شدید تنقید شروع ہو گئی جس کے بعد عمران خان نے وصول کر دہ تمام تنخواہ واپس کرنے کا اعلان کر دیا لیکن تاحال تحریک انصاف کے کسی ایک رکن نے بھی اپنی تنخواہ واپس نہیں کی متحدہ قومی مومنٹ اور جمعیت علما ء اسلام (ف) جن کو پاکستان تحریک انصاف کے لگائے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہوئے نے پی ٹی آئی کے ارکان کی ایوان سے مسلسل 0 4 روز بغیر اطلاع غیر حاضری آئینی مسئلہ کھڑا کر دیا اور پاکستان تحریک انصاف کے 28ارکان کو ’’ ڈی سیٹ ‘‘کرنے کے لئے دو تحاریک پیش کر دیں یہ تحاریک قومی اسمبلی کے 23ویں سیشن میں جمع کرائی گئیں جو موجودہ سیشن میں ’’پرائیویٹ ممبرز ڈے ‘‘ پر زیر بحث آئیں لیکن وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحق ڈار کی درخواست پر سپیکر سردار ایاز صادق نے اس ایشو کو آئندہ ’’پرائیویٹ ممبرز ڈے‘‘ تک موخرکر دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں جمعیت علما ء اسلام اور ایم کیو کی قیادت سے بات چیت کر کے اس معاملہ کا حل تلاش کیا جائے گا جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اس معاملہ کو اسی روز نمٹانے پر زور دے رہے تھے وہ بھی اس بات پر رضامند ہوگئے کہ اس معاملہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لئے وقت دیا جائے انہوں نے بتایا کہ ان کی جمعیت علما ء اسلام (ف) اور ایم کیو ایم کی قیادت سے بات ہوئی ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں کچھ بتانے سے گریز کیا کہ ان کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں ؟ ؎ تھی خبر گرم کہ آج غالب کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے پہ تماشہ نہ ہوا کے مصداق قومی اسمبلی میں تاحال اس ایشو پر ہنگامہ ہوا اور نہ ہی شور شرابہ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے جوڈیشل کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف اپنا مقدمہ ہارنے کے بعد ’’معذرت خواہانہ طرز عمل ‘‘ اختیار کرنے پر مجبورہو گئی ہے جب کہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جمعیت علما اسلام (ف) اور ایم کیو ایم نے ایوان سے مسلسل 40روز بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے پر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے سروں پر ’’ڈی سیٹ ‘‘ ہونے کی تلوار لٹکا دی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان نے قومی اسمبلی کو تسلیم کرنے کا اعلان تو کر دیا لیکن تاحال ’’کپتان‘‘ کو قومی اسمبلی میں واپس آنے کا حوصلہ نہیں ہوا جب وہ آخری باہر قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے انہیں ’’ شرم وحیا‘‘ کا جو درس دیا شاید وہ ا بھی تک اس پر تلملا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ان کے نائب شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل کمشن کی رپورٹ سمیت تمام ایشوز پر اپنی پارٹی کا کمزور موقف پیش کر رہے ہیں۔ حکومت نے انتخابی دھاندلی کے الزامات واپس نہ لینے پر تاریخی معاہدے کی دستاویزات دکھا کر تحریک انصاف کوشرمندہ کرنے پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ’’تھنک ٹینک‘‘ نے طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو تحریک انصاف کی قیادت کو تضاد بیانی پر آڑے ہاتھوں لینے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے ’’پرائیویٹ ممبرز ڈے ‘‘ پر حکومت نے ایم کیو ایم اور جمعیت علما ء اسلام (ف) کی جانب سے ایوان سے مسلسل 40روز تک بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے والے تحریک انصاف کے 28ارکان کو ’’ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ موخر کر کے ‘‘ وقتی طور’’ بیل آئوٹ‘‘تو کرا دیا ہے لیکن ابھی تک صورت حال واضح نہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان کی قسمت کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ سید خورشید شاہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی اشک شوئی تو کر ہی رہے ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام (ف) اور ایم کیو ایم اپنی ’’داڑھ‘‘ تلے آئی جماعت تحریک انصاف کو آسانی سے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں قومی اسمبلی میں ’’ جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کی مثال درست ثابت ہورہی ہے جس سپیکر کو تحریک انصاف عدالت سے حکم امتناعی لینے کے طعنے دیتی تھی آج اسی سپیکر سے اپنی رکنیت بچانے کیلئے حکم امتناعی کی بھیک مانگ رہی ہے ، قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کو’’ ڈی سیٹ ‘‘کرنے کی تحریک پر خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کی رکن نعیمہ کشور خان نے استفسار کیا تھا کہ’’ آج وہ عمران خان کہاں ہیں اورایوان میں کیوں نہیں آ رہے ؟‘‘ پاکستان تحریک انصاف کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ۔ جے یو آئی (ف)اور ایم کیو ایم کے طرز عمل سے دکھائی دیتا ہے دونوں جماعتوں نے تحریک انصاف کو’’ کنٹینر کی سیاست‘‘ پر سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سو ا تمام پارلیمانی جماعتوں کا ’’جرگہ‘‘ بلا لیا جس میں وزیر اعظم نے جہاں جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم سے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے خلاف ’’ڈی سیٹ‘‘ کرنے کی تحاریک واپس لینے کی باضابطہ طور درخواست کی وہاں انہوں دھرنے میں اظہار یک جہتی کرنے والی پارٹیوں کا شکریہ بھی ادا کیا مولانا فضل الرحمن نے پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں وزیر اعظم سے کہا کہ ’’ ہم آپ کے خیر خواہ اور اتحادی ضرور ہیں لیکن اصولی موقف پر کمپرومائز نہیں کر سکتے۔ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی ایوان میں کہہ دیں انہوں نے استعفے نہیں دئیے تب بھی ہم ان کے جھوٹ کو سچ تسلیم کر لیں گے ‘‘ وزیر اعظم نے دونوں جماعتوں کے قائدین کو منانے کے لئے 4رکنی حکومتی ٹیم تشکیل دی جس نے اگلے ہی روز وزیر اعظم کو اپنی ناکامی سے آگاہ کر دیا پاکستان تحریک انصاف کے ارکان موجودہ صورت حال میں خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی برملا یہ بات کہہ رہے ان کی ایوان میں واپسی اس معاہدے کا حصہ ہے جس کے تحت جوڈیشل کمیشن بنایا گیا ہے لیکن جمعیت علما ء اسلام (ف) اور ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کوایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے اسے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ دونوں جماعتوں کی تحاریک کو صرف حکومت ہی مسترد کرا سکتی ہے لیکن حکومت یہ تحاریک مسترد کر کے اپنی اتحادی جماعت جے یو آئی (ف) کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتی جب کہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت سمجھتی ہے کہ حکومت اسے سیاسی طور پر دبائو میں رکھ کر اپنی
وکٹ پر کھیلنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے لہذا اس کے خلاف ’’چوہے بلی ‘‘ کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کھیل میں کس حد تک صداقت پائی جاتی ہے اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا پی ٹی آئی کے خلاف ’’چوہے اور بلی کا کھیل ‘‘ جا ری رہتا یا ختم ہو جاتا اس بارے میں آئندہ منگل کو صورت حال واضح ہو جائے گی مولانا فضل الرحمنٰ بار بار حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس معاملہ کا آئینی حل تلاش کرے‘‘ دوسری طرف مولانا فضل الرحمنٰ اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین درمیان مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے وزیر اعظم سمیت سید خورشید شاہ بھی مولانا فضل الرحمنٰ اور ایم کیو ایم کو اس معاملہ پر مٹی ڈالنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے سب ہی پی ٹی آئی کے ارکان کے سروں پر ’’ڈی سیٹ‘‘ کرنے کی ’’تلوار‘‘ لٹکائے رکھنا چاہتے ہیں اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے لئے قرارداد کی حمایت کرنے اور آئندہ پارلیمنٹ کو ’’جعلی‘‘ قرار نہ دینے کا وعدہ لے کر درمیانی راستہ نکال لیا جائے اب دیکھنا یہ ہے حکومت اور اپوزیشن لیڈر ’’چوہے اور بلی‘‘ کے اس کھیل کو ختم کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں اس سوال کا جواب منگل کو قومی اسمبلی کے ’’پرائیوٹ ممبرز ڈے‘‘ پر مل جائے گا ۔