کیا ٹارگٹ کلرز کی بیرونی فنڈنگ کا تدارک ممکن نہیں؟

Aug 03, 2016

ایم۔ اے سلہری

سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کو ستمبر 2013ء سے جاری کراچی آپریشن کے حوالے سے رینجرز حکام نے جو اعداد و شمار فراہم کئے ہیں ان کی روشنی میں رینجرز آپریشن کو عوامی حلقوں میں اسلئے باعث اطمینان سمجھا جا رہا ہے کہ ایک تو رینجرز کی انتھک محنت اور حکام کے پختہ عزم کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان سمیت دہشت گردی کے جملہ واقعات میں نہ صرف نمایاں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ کراچی میں روزمرہ کاروبار زندگی کافی حد تک معمول پر آ گیا ہے دوسرے یہ کہ اعداد و شمار سے عیاں ہے کہ آپریشن کا ٹارگٹ دہشت گردی سے جڑے ہوئے جرائم کی بلا تفریق بیخ کنی ہے۔ رینجرز حکام کی بریفنگ کے مطابق رینجرز نے ستمبر 2013ء سے اب تک کراچی میٹروپولیٹن میں کل سات ہزار نو سو پچاس آپریشن کئے جن میں 1313 متحدہ، 1035 پیپلز امن کمیٹی اور اٹھائیس آپریشن اے این پی سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کئے گئے۔ آٹھ سو اڑتالیس ٹارگٹ کلرز نے سات ہزار دو سو چوبیس افراد کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا جن میں 188 ٹارگٹ کلرز کو اب تک سزا ہوئی۔ رینجرز کے کرنل قیصر نے یہ بھی واضح کیا کہ انہیں ڈی جی رینجرز کی طرف سے سخت ہدایات ہیں کہ بغیر ثبوت کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔ بریفنگ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ٹارگٹ کلرز کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے بھارت کا نام تو پہلے ہی سر فہرست تھا اب تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ اور برطانیہ جیسے مہربانوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ بریفنگ کے غیر جانبدانہ تجزیہ سے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی اور شہری زندگی کے معمولات کی بحالی جیسے حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش پہلوئوں کی تصدیق ہوتی ہے وہاں بعض تشویشناک پہلوئوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ صوبائی حکومت کی جانب سے رینجرز کو آپریشن کے اختیارات دینے میں بارہا تامل کا مظاہرہ کیا گیا تاہم رینجرز نے مسلسل غیر متزلزل عزم و ہمت سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں نمایاں کمی کر کے کراچی میں معمولات زندگی کی بحالی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ نہ صرف ملک کے عوام کیلئے بالعموم اور اہل کراچی کیلئے بالخصوص باعث اطمینان ہے بلکہ بجا طور پر لائق تحسین بھی ہے۔ یہ امر بھی باعث طمانیت ہے کہ رینجرز کی اس کاروائی کا بلاتفریق ہدف کراچی کا امن تہہ و بالا کرنے کے ذمہ دار جرائم پیشہ عناصر ہیں۔ اس کے باوجود رینجرز آپریشن کو اگر کوئی کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف مہم جوئی قرار دے کر آپریشن کی شفافیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ الزام تراشی کی سیاست نہ صرف انتہائی افسوس ناک ہے بلکہ یہ رویہ وطن کی خاطر محب وطن سولجرز کی عظیم قربانیوں اور احسانات کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے جہاں ملک کے گوشہ گوشہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ سب کو کراچی کے امن کی فکر ہے اور اگر وہاں اسی فیصد جرائم پر قابو پا لیا گیا ہے تو یہ امر پاکستان بھر کے عوام کے لئے باعث مسرت ہے اسلئے عوام اس عظیم کاوش پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی رینجرز اور سندھ رینجر ز کو تحسین پیش کرتے ہیں۔ بریفنگ میں جو دیگر پہلو سامنے آئے ہیں ان میں انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ رینجرز کی لا تعداد قربانیوں کے باوجود دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو ابھی بھی بیرونی فنڈنگ جاری ہے۔ جن ممالک سے فنڈنگ ہو رہی ہے ان کے نام بھی منظر عام پر آگئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے اگر فنڈنگ کی روک تھام نہیں ہوتی تو آپریشن فورسز سے سو فیصد کامیابی کی توقع بے سود ہے اور یہ روک تھام کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ متعلقہ ممالک سے با معنی احتجاج کیا جاتا تو شائد آج تک یہ نوبت نہ پہنچتی۔ ہمیں تو کوئی نہیں معاف کرتا جس کا جوجی چاہے الزام لگا دیتا ہے۔ کیا ہمارے منہ میں زبان نہیں؟ ہم حق سچ پر ڈٹ کر زور دار اور با معنی احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ برطانوی حکومت نے تو پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے پاکستانی نژاد ایک عام برطانوی خاتون شہری کے قتل پر متعلقہ ڈی پی او کو تفتیش میں خود دلچسپی لے کر معاملے کی تہہ تک جلد پہنچنے کی تاکید پر مبنی مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی ڈی پی او کو کچھ ایسے ہی الفاظ میں خود تفتیش کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے اور اس حکم نامہ کے نتیجے میں مقتولہ کے باپ سمیت بعض دیگر عزیزوں کو گرفتار کر کے شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ یہ تو ایک عام قتل کا کیس ہے کسی فنڈنگ کا ایشو نہیں۔ پھر بھی دو حکومتوں نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کا بامقصد اور بروقت نوٹس لینا ضروری سمجھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مرتبے میں کم ہیں یا فنڈنگ کا الزام بے بنیاد ہے یا اس کا ثبوت دستیاب نہیں یا یہ مسئلہ ہی اس قابل نہیں سمجھا جارہا کہ اس کی وجہ سے خواہ مخواہ کسی سے تنازعہ مول لیا جائے۔ ظاہر ہے رینجرز حکام سے بغیر ثبوت بات کی توقع نہیں ہو سکتی اور اگر ثبوت موجود ہیں تو پھر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے ملک کی بنیادیں ہلانے کیلئے جن ممالک سے تسلسل کے ساتھ دہشت گردوں کو فنڈنگ ہو رہی ہے اس کا کوئی تدارک ممکن کیوں نہیں؟

مزیدخبریں