مولانا محمد خان شیرانی، محمد خان جونیجو، محمد خان ڈاکو اور شہدا کشمیر

ہمیں تو یہی سکھایا گیا ہے کہ جو حق اور سچ اور اچھی بات کرے خواہ اس کا تعلق فضل الرحمٰن گروپ سے ہی کیوں نہ ہو، غور سے سنو اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مولانا شیرانی نے میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ بداخلاق یعنی بدکردار عورت کو خفیف ضرب سے ہلکا سا مارا جا سکتا ہے، بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ ہلکے ہوئے انسان ہلکی مار کی تشریح ، مولانا سے کرانے کیلئے ہلکان ہو گئے، حالانکہ مولانا شیرانی نے یہ الفاظ اور یہ اختراع اپنی طرف سے نہیں کی تھی، سورة النساءاور حضور کا خطبہ حجتہ الوداع اس ضمن میں مکمل اور مستند احکامات کی شکل میں ہر مومن کے پاس موجود ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا کا لغوی مطلب ہے ہمارا آقا یا مولیٰ، ہم اللہ تعالیٰ اور سرور کائنات کو بھی اسی نام سے پکارتے ہیں۔ اس کا احترام خود حضور اتنا فرماتے کہ وہ صرف مولانا اللہ تعالیٰ کیلئے پسند فرماتے تھے۔ مولوی پابندی شریعت اور شرح اسلامی کے احکام جاننے والے شخص کو کہتے ہیں اور مفتی دین کے مطابق فتویٰ دینے والے کو کہتے ہیں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ مفتی عبدالقوی جیسے فتویٰ باز، اور بعض مولوی اور مولانا صاحبان کو اپنے آپ کو اتنے بڑے واجب الاحترام منصب اور ممتاز القاب کی مناسبت اور اہلیت کےمطابق ڈھالنے کیلئے خود کو تیار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ روز محشر تو ہر ایک کو جوابدہ ہونا پڑیگا۔ مگر جہاں یہ صورتحال ہو کہ جن کے پیچھے ہم ہاتھ باندھے نماز پڑھتے ہیں اور امام کور سورة فاتحہ کے معنیٰ بھی نہیں آتے تو قصور کس کا ہے؟ کیونکہ امام کی تنخواہ صرف ایک ہزار اور فصل کے موقع پر گندم دینے کا وعدہ ، اور امام بھی رحیم یار خان جیسے دور دراز علاقے کا رہائشی جو واہگہ بارڈر کی قریبی بستی کی مسجد کا امام ہے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں مولانا شیرانی پر برہم ہونے کی بجائے سورة النسا میں ارشاد ربانی پڑھنا چاہئے، آیت 35 میں لکھا ہے کہ جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں یعنی شوہر کی غیر موجودگی میں اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں انکے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو انہیں سمجھاﺅ، خوابگاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو، پھراگر وہ منع ہو جائیں (تمہاری مطیع) ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے بہانے تلاش نہ کرو۔ آیت 15 میں مذکور ہے کہ تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھیں یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ ان کیلئے کوئی راستہ نکال دے اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کرے اور ان دونوں کو تکلیف دو پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں تو انہیں چھوڑ دو، دراصل رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانا بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ایک دفعہ ایک عورت حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے پوچھا کہ شادی کے بعد عورت کی اپنے شوہر کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے‘ حضور نے تفصیل سے اسے بتایا تو اس نے کہا کہ میں اس ذمہ داری کے اپنے آپ کو قابل نہیں سمجھتی لہذا میں شادی نہیں کرتی ۔ذمہ داری تو عورت اور مرد دونوں کی ہے۔ حدیث ہے کہ جو شوہر اپنی بیوی کی ایذا پر صبر کرتا ہے وہ جنتی ہے اور بیوی سے ناراض ہونے میں جلدی نہ کرو اگر تمہیں اس کی ایک عادت پسند نہیں آئےگی تودوسری عادت پسند آ جائےگی اور جھگڑا لو عورت کو برداشت کرنیوالے کو صبر ایوبؑ کا ثواب دیا جائےگا۔ مختصر یہ کہ پتہ یہ چلتا ہے کہ عورت کو سزا آخری حربے اور مجبوری میں دی جاتی ہے۔ کیونکہ پھر اسکے بعد کوئی چارہ نہیں رہتا اگر ان احکام کو مانا جاتا تو قندیل بھی قتل نہ ہوتی اور ہوٹلوں میں جوان لڑکیاں بھی نہ تو خودکشی کرتیں اور نہ قتل ہوتیں بقول سید مظفر علی شاہ ....
گمان ہستی یزداں یقین میں موڑ ہی دیں گے
در و دیوار کعبہ پرسروں کو پھوڑ ہی دیں گے
ہمارے وطن میں تین محمد خان اشخاص نے اپنے نام کا لوہا منوایا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی، محمد خان جونیجو اور وادی سون کا محمد خان ڈاکو ان میں سے دو تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، محمد خان ڈاکو چونکہ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کوبانٹ دیتا تھا۔ اگر اب زندہ ہوتا تو یقیناً پارلیمان میں براجمان ہوتا ۔اس وقت بھاری ذمہ داری محمد خان شیرانی کے کاندھوں پہ ہے کہ وہ اپنے مولانا فضل الرحمٰن کو یقین دلائیں کہ انہوں نے ایک دن اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا ہے کہ اپنے دور حکومت میں خیبر پختونخواہ میں اسلام کا نفاذ کیوں نہ کیا اور کشمیر کمیٹی کا سربراہ دس سال سے ہونے کے باوجود انہوں نے لاکھوں شہیدوں کے خون کا سودا کیوں کیا؟ دورہ بھارت میں انہوں نے سوائے اپنے مدرسوں کے دوروں کے اور کیا کیا؟ انہوں نے وہاں کے حکمرانوں سے ملاقات کی مگر کشمیر کی کوئی کوئی بات کیوں نہیں کی؟ وہ ہر حکمران کو بلیک میل کرکے اپنے لئے ہی نہیں‘ اپنے بھائی کیلئے بھی بھی مراعات اور عہدے مانگتے ہیں۔ اب نوازشریف کو بھی مختلف مواقع پر کبھی متحدہ اور الطاف حسین کا نام لیکر اور کبھی عمران خان اور طاہر القادری کے نام پر اپنی اہمیت جتا کر اور اپنے ووٹ بنک کی قیمت بنکوں میں جمع کرا دیتے ہیں۔ میری بات اگر مولانا کو بری لگے، تو روح مفتی محمود سے پوچھ لیں۔ کشمیریوں کو یرغمال بنوا کر اب خدارا کشمیری النسل وزیراعظم کو یرغمال بنا کر انکی سیاسی مجبوریوں سے سے فائدہ نہ اٹھائیں۔
وہ علم، کم بصری جس میں ہمکنار بنیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم

ای پیپر دی نیشن