عوامی سطح پر ذہنی الجھائو ہر دن بڑھتا جا رہا ہے ایک دوسرے پر اڑائی جانے والی الزامات کی گرد و غبار اس حقیقت کا چہرہ چھپانے کا ذریعہ بن رہی ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کون ہے کرپشن کے حمام پر نظر ڈالی جائے تو برہنگی کا راج نظر آئے گا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کون سی جماعت ایسی ہے جس کے وابستگان کے چہرے الزامات ہی نہیں اقدامات سے آلودہ نہیں ہیں پیپلز پارٹی اس دوڑ میں سب سے آگے (ن) لیگ دوسرے اور ’’وکٹری سٹینڈ‘‘ پر تحریک انصاف تیسرے نمبر ہے (شاید اس لئے کہ تاحال وفاق کی سطح پر اقتدار حاصل نہیں کر پائی ہے۔ ستم بالائے ستم کرپشن کیخلاف سب سے زیادہ دہائیاں دینے والی شریں مزاری بھی قرضہ معاف کرانے والوں کی صف میں شامل ہو کر قوم کے پانچ کروڑ ڈکار گئی ہیں۔ اب ایک دوسرے کا تحفظ ان کی مجبوری نہ بنے تو کیا بنے۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ٹی او آر کا معاملہ الجھا کر اسے گزرے وقت کی داستان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان نے احتساب کی تحریک کو بیداری عوام کی تحریک میں تبدیل کر کے بالواسطہ طور پر حکومت کو اس دبائو سے نکالنے کی کوشش کی ہے عوامی سطح پر یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جب تک کرپشن بمعہ پانامہ لیکس کے معاملات ان تینوں جماعتوں کے پاس رہیں گے ایک دوسرے پر الزامات کی برسات سے عوام کو گمراہ اور اپنے کارکنوں اور حامیوں کو دام فریب میں پھنسایا جاتا رہے گا۔ یادش بخیر پنجاب میں جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے شادی کے موقع پر ون ڈش کی پابندی لگائی تو میزبان اندر سے خوش مگر زبان سے یہی الاپتے تھے کیا کریں جی شہباز شریف نے پابندی لگا دی ہے زیادہ ڈشیں بنائی ہی نہیں جا سکتیں، ایسی ہی صورت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ساتھ ہے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس ہی نہیں لے رہی اس لئے معاملہ عدالت کی دہلیز پار نہیں کر رہا ۔سوال وہی کہ پھر آپ خود کیوں نہیں جا رہے۔ سندھ میں بھی عجیب و غریب صورتحال ہے کئی روز کی بیکار مشق کے بعد بالآخر رینجرز کے کراچی میں پولسنگ کے اختیارات بحال کر دیئے گئے ہیں اس میں عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے جس سمری پر دستخط کئے اسکے مطابق رینجرز ایک سال تک سندھ میں رہے گی مگر اسے اختیارات صرف کراچی ڈویژن میں حاصل ہونگے۔ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر یہ روشن ہو گیا ہے کہ اسد کھرل کو رینجرز سے چھڑانے اور لاڑکانہ میں رینجرز پر حملہ کے بعد سخت گیر اور تیز رفتار آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اس آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ بڑھا کر پیپلز پارٹی کے وابستگان پر بھی ہاتھ ڈالا جائیگا۔ رینجرز کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے اندرون سندھ جن کیلئے محفوظ پناہ گاہ ہے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ تحریک انصاف کرپشن کیخلاف مہم تو چلا رہی ہے مگر مالی دہشت گردی اور دہشت گردی کیخلاف برسر پیکار فورسز یا رینجرز کو پورے سندھ میں اختیارات دلانے کیلئے کسی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کر رہی کیونکہ اس طرح زمینوں پر قبضے، قرضے معاف کرانے اور دیگر کرپشن کیسز میں اس کے اپنے لوگ بھی اس آپریشن کی زد میں آ سکتے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت رینجرز کو اختیارات نہ دینے پر وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سے مخالفانہ بیانات تو دلوا رہی ہے مگر یہ پروٹیکشن آف پاکستان آرڈنینس میں توسیع کا ارادہ نہیں رکھتی جس کے نتیجے میں خصوصی عدالتیں اپنا کام سمیٹ چکی ہیں۔ سندھ حکومت سے رینجرز کے اختیارات کا مطالبہ کرنیوالی وفاقی حکومت کے پاس آخر پوپا سے پہلو تہی کا جواز کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوپا میں توسیع نہ ہونے کی بناء پر رینجرز جب اسد کھرل کو گرفتار کرتی ہے تو وہ ا سے اپنے پاس 90 روز کیلئے زیر تفتیش نہیں رکھ سکتی اور اسے فوراً پولیس کو واپس کرنا پڑتا ہے جو اسے معزز مہمان کی طرح عدالت میں پیش کرتی ہے اور چودہ روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج کر وقتی طور پر سہولت فراہم کر دی جاتی ہے سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے اس رویہ کی وجہ کیا ہے آپریشن کے حوالے سے دونوں کیلئے رینجرز دراصل ’’ڈینجرز‘‘ (Danger) کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
جہاں تک سندھ میں تبدیلی کی بات ہے کہ جو پرانے چہروں پر مشتمل کابینہ تشکیل پائی ہے اس میں واحد نئی بات وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے عزم و ارادوں کا اظہار ہے اور ان عزم و ارادوں کو عملی شکل دینے کیلئے ضرورت ہے اختیارات کی مگر اختیارات سمندر پار دوبئی میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی بے اختیاری کا کھلا اشتہار اڑتالیس گھنٹوں میں دوبئی کے دو پھیرے ہیں خود پیپلزپارٹی کے حلقوں کے مطابق نئی کابینہ سے جو شخصیت سخت دل برداشتہ ہیں وہ فریال تالپور ہیں۔ اگرچہ مراد علی شاہ کے چنائو کا سہرا بلاول زرداری کے سر باندھا گیا ہے مگر درحقیقت یہ آصف زرداری کا فیصلہ ہے اور باخبری کے دعویداروں کے مطابق اس فیصلے میں انور مجید کی مشاورت بھی شامل ہے جو کئی کیسز میں ملوث ہیں۔ نئی کابینہ میں شامل نثار کھوڑو اور دیگر سینئر رہنما مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ بنانے سے خوش نہیں ہیں اور نجی محفلوں میں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ نئے وزیر اعلیٰ کیلئے نگاہ انتخاب مراد علی شاہ پر کیوں پڑی میں اس کا پس منظر کیا سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا 19 دسمبر 2015ء کو لگایا جانے والا یہ الزام ہے کہ سندھ کا وزیر خزانہ مراد علی شاہ فنانس منسٹری سے 80 ارب روپے سالانہ زرداری کو بھجوا رہا ہے (تادم تحریر اس بڑے الزام پر ذوالفقار مرزا کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی)
(ادھر پاکستانی نژاد کینڈین طاہر القادری لنگر لنگوٹ کس کر قصاص لینے میدان میں اترنے کو تیار ہیں۔ عوامی تحریک کی اس مہم کو سب سے زیادہ فائدہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ سے پہنچ سکتا ہے جو اگرچہ سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی مگر غیر سرکاری طور پر اس کے مندرجات طشت از بام ہو چکے ہیں جس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر پولیس بھیجنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اس لئے پولیس کی ماڈل ٹائون میں کارروائی سے پہلے حکومتی عہدیداروں اور قانون دانوں کو عدالتی حکم امتناعی کے باوجود پولیس بھجوائے جانے کا قانونی جواز ثابت کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کیلئے جو دوسری بات باعث تقویت ہے وہ یہ کہ ماڈل ٹائون واقعہ کی ایف آئی آر جنرل راحیل شریف کی مداخلت سے درج ہوئی یہ بھی حکومت پر ایک طرح کا غیر محسوس دبائو ہے۔ بہر حال ایک دن کے وقفہ کے ساتھ اٹھنے والی ہی دو تحریکیں اپنے مقاصد کس حد تک حاصل کر پائیں گی اور حکومت ان سے کامیابی کے ساتھ نمٹ کر کس حد تک سرخرو ہو سکے گی یہ بھی جلد کھل کر سامنے آ جائیگا۔