حکومت ہر سال کھیل اور کھلاڑیوں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے آخر وہ جاتے کہاں ہیں۔ یہ بڑے بڑے سپورٹس کمپلیکس اور کھیلوں کے ادارے اور تنظیمیں انکے سینکڑوں کی تعداد میں کرتا دھرتا، ہر ضلع کی سطح پر موجود کھیلوں کی ایسوسی ایشن کیا گھاس کاٹنے کیلئے بنائے گئی ہیں۔بھاری تنخواہوں کے باوجود آفیشلز غیر ملکی اداروں کی نوکری کی تاک میں رہتے ہیں۔ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن آخر کس مرض کی دوا ہے۔ کیا اس زبوں حالی کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی۔ اس بار صرف اتھلیٹک اور شوٹنگ کے مقابلوں میں شرکت کیلئے صرف 2,2 کھلاڑیوں پر مشتمل دستے اپنے 4آفیشلز کیساتھ برازیل گئے ہیں۔ کبھی نامساعد حالات میں بھی اولمپکس میں پاکستانی کھلاڑی بھرپور شرکت کرتے تھے وکٹری سٹینڈ پر پاکستانی پرچم بھی لہرتا ہوا نظر آتا اور فضا میں پاکستان کا قومی ترانہ بھی گونجتا سنائی دیتاتھا مگر جب سے محکمہ کھیل کو کمائی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے صرف کرکٹ کی ہی پوجاشروع ہو گئی ہے۔ باقی کھیلوں کو فراموش کرکے طاق نسیاں بنا دیا گیا۔ ان حالات میں کھلاڑی کہاں سے بنیں گے یہاں تو نوجوان نسل کو سیاست اور روٹی کے چکر میں الجھایا گیا ہے کہ وہ اسی سے کھیل رہے ہیں۔ شاید اس لئے حکومت دعوے کرتی ہے کہ وہ کھیلوں کی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے۔
…٭…٭…٭…٭…
نوشہرو فیروز میں پولیس نے 14ماہ کے بچے کیخلاف موٹر سائیکل چھیننے کا مقدمہ درج کر لیا۔
لازمی بات ہے جب کوئی جرم کریگا تو اس کیخلاف مقدمہ درج ہو گا ہی۔ البتہ یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ 14ماہ کے بچے نے کس طرح اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ واردات کی۔ کیا مقدمہ درج کرانے اور درج کرنیوالوں کو اس کا احساس نہیں ہوا۔آج تک کہیں یہ نہیں دیکھا گیا کہ ڈکیتی کی واردات میں کوئی ڈاکو سال یا ڈیڑھ سال کا ہو۔ اب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ چھوٹو ڈکیت کا نیا جنم ہو کیونکہ پہلے والا تو آج بھی سرکاری مہمان خانے میں پڑا ہے۔ اب سندھ میں پولیس کے ہاتھوں اس کا نیا جنم سب کے سامنے ہے۔ ابھی سے یہ اٹھان ہے تو آگے جا کر یہ چھوٹو ڈکیت پولیس والوں کی جان ناتواں پر کیا کیا ستم ڈھائے گا۔ شاید اس کا اندازہ پولیس نے لگا لیا ہے تبھی تو اسے پکڑنے گئی تھی تو صاحبو دیکھ لو ہماری پولیس کی پھرتیاں اور اعلیٰ کارکردگی۔یہ تو شکر ہے بیچ بچائو ہو گیا ورنہ کیا پتہ پولیس کتنا اسلحہ و گولہ بارود اور مسروقہ موٹر سائیکلوں کی برآمدگی ڈال کر اس چھوٹو کو بھی حوالات کی سیر کراتی۔
…٭…٭…٭…٭…
پی آئی اے میں انتظامیہ کی عملداری‘ اختیار نہ ہونے کے برابر ہے: چیئر مین اعظم سہگل
اتنا کڑوا سچ کہنے کی ہمت بھی بڑی بات ہے ورنہ بڑے بڑے چیئرمین صرف اپنی عزت بچانے کیلئے خاموشی سے پی آئی اے ملازمین کی یونینز کی دھونس دھاندلی برداشت کرتے رہے۔ جب کام کم اور آدمی زیادہ ہوں تو یہ ویہلے بیٹھے ملازمین اور انکے سرپرست سازشیں نہیں کرینگے تو کیا بیٹھ کر وظائف پڑھیں گے۔مشہور کہاوت ہے خالی پیٹ شیطان کا گھر اور بھرا ہوا پیٹ اس کا کارخانہ ہوتا ہے۔ یہاں تو سب کے پیٹ بھرے ہیں۔اب جہاں اتنی ساری یونینز بیک وقت کام کرتی ہوں گی وہاں سازشیں تو جنم لیں گی ہی۔ یونین سازی کی وبا ایک طرف اور یہ ملازمین کی فوج ظفر موج دوسری طرف۔ اتنے طیارے ہی نہیں جتنے ملازمین ہیں۔اب اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ ہم ایک بڑا طیارہ ایک چھوٹے سے پڑوسی ملک سے لیز پر لے رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا لیں قومی ایئر لائن کی حالت زار کا۔ اوپر سے آئے روز کوئی نیا سکینڈل ہماری راہ تک رہا ہوتا ہے۔ اب ایک بار پھر طیارے کے اندر سے ہیروئن کی برآمدگی کے حوالے سے ہماری جو بھد اڑ رہی اور بدنامی ہو رہی ہے اسکی زد میں درجن بھر ملازمین آ رہے ہیں اب دیکھنا ہے ایسی کالی بھیڑوں سے کب جان چھڑائی جا سکے گی۔ ویسے کیا یونین والے اپنی ان منظور نظر کالی بھیڑوں کیخلاف کارروائی کرنے دینگے۔
…٭…٭…٭…٭…
حکومت صرف چکر چلا رہی ہے، ٹی او آر کے معاملے پر دال میں کچھ کالا ہے: اعتزاز احسن
اب یہ اپوزیشن بے چاری اتنی سیدھی سادی ہے کہ اس چکر میں آکر گھن چکر ہوگئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ جو آزاد کشمیر سے قبل اور دوران تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں قربت پیدا ہوئی تھی، وہ یکدم دوریوں میں نہ بدلتی۔اب اپنی اپنی سمت میں دوڑ لگا رہے ہیں۔ اور تو اور جماعت اسلامی جس نے آزاد کشمیر مسلم لیگ سے اتحاد کی بدولت مانگے تانگے کی چند سیٹیں آزاد کشمیر اسمبلی میں حاصل کیں، بجائے اسکے مرہون منت ہوتی وہ بھی پاکستان میں حکومت کیخلاف اپنا علیحدہ احتجاجی پروگرام بنا رہی ہے۔ مولانا طاہر القادری کا بھی احتجاجی پروگرام اس ہفتے متوقع ہے۔ یوں واقعی لگتا ہے اعتزاز جی سچ کہہ رہے ہیں۔ چکر حکومت چلا رہی ے اور اس میں چکرا رہی ہے پوری اپوزیشن۔ ٹی او آر کا رونا چھوڑیں یہاں تو جس طرف سے ہاتھ ڈالیں، دال میں کالا ہی کالا ملے گا۔ کیا اپوزیشن کیا حکومت سب اپنے اپنے ٹی او آر لانے کے باوجود متفق نہیں ہورہے۔ ایک دوسرے کو رگیدنے کی کوشش میں ہیں نیتیں صاف نہیںتو صاف دال کہاں سے ملے گی۔ اگر حکومت اپوزیشن میں مفاہمت ہو بھی گئی تو کوئی نہ کوئی دال میں پڑا کنکر کسی نہ کسی کے منہ آئیگا اور مزہ کرکرا کرتا رہے گا۔ اس وقت دراصل اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ گویا احتجاجی پروگراموں کی میراتھن لگی ہے۔ دیکھنا ہے کون بازی لے جاتا ہے۔ فی الحال تو سب لنگر لنگوٹ کسے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ گویا چکر چل رہا ہے اور لوگ چکرا رہے ہیں۔
ریوو اولمپکس کیلئے پاکستان کی 18کروڑ آبادی میں سے ایک درجن کھلاڑی منتخب کرنا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ اب کی بار چند نفوس پر مشتمل دستہ پاکستان کی نمائندگی کرنے کیلئے روانہ ہوا ہے۔
Aug 03, 2016