اُردو صحافت نے بڑے بڑے سپوت پیدا کیے ہیں۔ اُردو صحافت کی تاریخ 1857ءکے محاربہ¿ آزادی میں پھانسی پانے والے دہلی کے ایک ہیرو مولوی محمد باقر (مولانا محمد حسین آزاد کے والد) سے پہلے سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کے اردو اخبار ”ہمدرد“ اور مولانا ظفر علی خاں کے ”زمیندار“ نے برطانوی حکومت کو جس طرح اور جس انداز میں للکارا، وہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کا ایک سنہری باب ہے۔ حمید نظامی (مرحوم) نے قائدِاعظم کی ہدایت پر آزادی کے لیے ان کا پیغام ”نوائے وقت“ کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیا۔ حمید نظامی مرحوم دبنگ صحافی تھے۔ ان کے ساتھ صحافت کے ایک اور دبنگ سپوت کا نام بھی آتا ہے، جو بڑے بڑے حکمرانوں کے سامنے ”چٹان“ کی مانند ڈٹا رہا۔ اس سپوت کا نام شورش کاشمیری تھا۔ دبنگ سپوتوں میں حمید نظامی کے ساتھ مجید نظامی مرحوم و مغفور کا نام بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اُردو صحافت میں ایسے تُند و طوفان مزاج سپوت کا اضافہ ہوا، جس کے اخبار ”خبریں“ نے بڑے بڑے جرائم پیشہ پردہ نشینوں کے چہروں سے نقاب نوچ ڈالے۔ ضیا شاہد صاحب سے آج جو بات اس کالم کا محرک بنی ہے، وہ دنیاداری کے ہزاروں لاکھوں جھمیلوں سے الگ ہے۔ سب سے پہلے تو میں قلم فا¶نڈیشن انٹرنیشنل والٹن روڈ لاہور کینٹ کے مہتمم علامہ عبدالستار عاصم صاحب کا بے حد شکریہ کہ انہوں نے اس ہیچ مدان کو ایک ایسی خوب صورت کتاب کا تحفہ ارسال کیا، جس کا نام ہی اتنا مقدس اور پاکیزہ ہے کہ ”امی جان“ کے الفاظ ادا کرتے ہی کلیجے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ پروین شاکر کا یہ مشہورِ زمانہ شعر دیکھیے جسے مہدی حسن کی پُردرد اور پُرتاثیر نے آواز نے تاثیر کی انتہاوں تک پہنچایا ہے۔
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی بات مسیحائی کی
سالہا سال تک ذہن اس شعر کے ایک ہی مفہوم تک اڑان بھرتا رہا۔ آج اس کا دوسرا مفہوم والدہ کے شفقت بھرے اس ہاتھ کا ذہن میں آیا ہے جووہ اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے کے بخار میں مُبتلا ہونے کی صورت میں اس کی پیشانی پر رکھتی ہے۔ غزل کی روایت ہے کہ اس میں ایک محبوب کا تذکرہ ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے ان کا محبوب والدہ ہی ہوتی ہے۔
ضیا شاہد صاحب کی کتاب کا آغاز ہی ان کی والدہ محترمہ کی وفات اور ذہین صحافی اور بیٹے عدنان شاہد مرحوم، بھانجے محمد ریحان المدنی، داماد عمران عاصم علوی، بڑے بھائیوں ڈاکٹر بقا محمد اور دکتور مزمل مہدی کی وفات اور ان کی آخری آرام گاہوں کے تذکرہ سے ہوتا ہے۔ ضیا شاہد صاحب آپ نے بیٹے، بھائیوں، والد اور والدہ کا غم برداشت کیا۔ آپ تو غالب کے ہم پلہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبر و شکیب عطا فرمائے (آمین) آپ ایک مشہور صحافی ہیں لیکن ”امی جان“ کی دعا¶ں اور ان کے بابرکت تذکرے سے آپ ادیب بن گئے ہیں۔ ”امی جان“ کی سطر سطر آپ کے طرزِ تحریر کے انوکھے پن اور دل سے نکلنے والی غم انگیز تاثیر اور آہ نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے قارئین کو رلایا ہے۔ والدہ کی شفقتوں اور قربانیوں کا تذکرہ تو بڑے بڑے شاعروں ادیبوں نے کیا ہے لیکن علامہ اقبال نے جو مرثیہ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ فرماتے ہیں۔
کس کو اب ہو گا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے پر رہے گا بے قرار
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ فرض نمازوں کی تو پابند تھیں ہی، اشراق و چاشت اور تہجد کا ناغہ نہ کرتیں۔ عزیزوں، قریبوں اور ہمسایوں سے حسن سلوک مثالی تھا۔ لکھتے ہیں۔ ”باپ کی طرح ماں بھی جس درجہ کی نعمت ہے، اس کا پورا اندازہ بھی اس نعمت کی موجودگی میں شاید ممکن نہیں۔“ قدرت اللہ شہاب ”ماں جی کی وفات“ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
”ماں جی کو کراچی کے قبرستان میں چھوڑ کر جب تنہا راولپنڈی واپس پہنچا تو معاً یوں محسوس ہوا کہ گھر کی چھت اُڑ گئی ہے اور اب دھوپ، بارش، اولے اور آندھی سے بچنے کا کوئی حفاظتی سہارا موجود نہیں رہا۔ ایوان صدر میں اپنے دفتر گیا تو وہ بھی اُجڑا اُجڑا نظر آیا“۔ صدر ایوب خاں نے جب شہاب صاحب کو والدہ کا غم ہلکا کرنے کے لیے سوات جانے کا مشورہ دیا تو انہوں نے جواب دیا ”سر میں نے اپنی ماں کی یاد کو الفاظ میں ڈھال کر کاغذ پر منتقل کر دیا ہے۔ اب یہ المیہ صرف میرا ہی غم نہیں رہا“۔ ضیا شاہد صاحب نے اپنی امی جان کے غم کو صرف اپنے تک محدود نہیں رکھا ہے، اسے ہم سب کا غم بنا دیا ہے۔
”امی جان“ کے اوراق میں کہیں کہیں صحافی بھی سر اٹھاتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ سعودیہ ہو یا متحدہ عرب امارات میں رنگ و نسل اور شہری ہونے کی بنیاد پر محکمانہ عہدے اور ترقیاں ملتی ہیں جب کہ یورپی ممالک میں اہلیت اور قابلیت کی بنا پر۔ ضیا شاہد صاحب کی والدہ محترمہ رحم دل، غریب پرور، عبادت گزار اور اصول پسند تھیں۔ ضیا شاہد صاحب آپ نے اپنی والدہ کی شان اور ان کا مرتبہ بیان کر کے حق ادا کر دیا ہے۔ آپ نے اپنی ”بی بی جی“ میں سب کو ان کی والدہ کی جھلک دکھا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ ماجدہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ اور آپ کے اہل خانہ کو صبر جمیل سے نوازے۔ (آمین)