قومی افق…فرخ سعید خواجہ
پانامہ کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور اس فیصلے کے حق اور مخالفت میں قوم اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم نے اسے متنازع بنا دیا ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جسٹس منیر سے جسٹس عبدالحمید ڈوگر تک بہت سے متنازع فیصلے سامنے آئے۔ ان فیصلوں کا ذمہ دار عدلیہ کے ادارے کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ یہ جج حضرات کے فیصلے تھے اور بلاشبہ ان کی ذمہ داری متعلقہ ججوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ نوازشریف کے خلاف کیس احتساب عدالتوں کو بھجوا کر اُن کے فیصلوں کا انتظار کرلیا جاتا اور وہاں سے نوازشریف کو مجرم ٹھہرائے جانے کے بعد نااہل قرار دیا جاتا تو اس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش نہ ہوتی۔جس طرح اور جس جرم میں نوازشریف کی نااہلی ہوئی اس کا سارے فسانے میں کوئی ذکر نہیں تھا سو قوم بالعموم اور مسلم لیگ (ن) بالخصوص اس فیصلے کو متنازع قرار دے رہی ہے۔ نوازشریف کے قریبی افراد خواجہ سعد رفیق‘ ڈاکٹر آصف کرمانی بتاتے ہیں کہ نوازشریف اس قدر بااعتماد تھے کہ فیصلہ اُن کے خلاف نہیں آسکتا کہ انہیں بارہا کہا گیا کہ دوسرے پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ ججوں کے ریمارکس کا ذکر بھی ہوتا رہا لیکن نوازشریف مسکرا کر کہتے کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا نہ منی لانڈرنگ کی نہ کرپشن کی سو قانون کا فیصلہ ہمارے حق میں ہی ہوگا۔
نوازشریف کی اس قدر خود اعتمادی کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ ن کے ممبران اسمبلی اور عہدیدار فیصلے کا اعلان ہونے تک اطمینان سے گھروں اور دفتروں میں بیٹھے ہوئے تھے جوں ہی فیصلے کا اعلان ہوا اُن میں کھلبلی مچ گئی۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک، جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر، چیف آرگنائزر سید توصیف شاہ مسلم لیگ ن لاہور کے مرکزی دفتر میں موجود تھے۔ انہوں نے فوری طور پر ممبران اسمبلی کو ٹیلی فون کروائے اور قومی اسمبلی کے 13 حلقوں کے 13 معروف مقامات پر احتجاج کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ قومی اسمبلی کے جن حلقوں میں ممبران قومی اسمبلی لاہور میں موجود نہیں تھے اُن کے ممبران صوبائی اسمبلی کو یہ ذمہ دار سونپی گئی۔ جمعہ کا دن ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے ممبران اسمبلی اپنے قریبی ساتھیوں، یونین کونسلوں کے چیئرمینوں، وائس چیئرمینوں، کونسلروں اور مسلم لیگی کارکنوں کے ہمراہ اپنے لئے مقررہ مقام پر جمع ہوگئے۔ لگ بھگ ہر احتجاجی مقام پر نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں اور سپورٹروں کی بڑی تعداد بھی اُن کے ساتھ شریک ہوگئی۔ تاہم میری یہ رائے ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے لیکن اُن کے سپورٹر اور ووٹر لاتعداد ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا ووٹر زیادہ یکسو ہوگیا ہے۔ نوازشریف کے طرز حکمرانی اور پارٹی چلانے کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے ووٹر، سپورٹر اور پارٹی کارکنوں کو بہت سے تحفظات رہے ہیں لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ سنتے ہی وہ سب اپنے تحفظات کو ایک طرف جھٹک کر نوازشریف اور مسلم لیگ (ن)کی حمایت پر کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ بدھ کی صبح جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں جی پی او چوک میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل، سابق جج، این آر سی کے سابق چیئرمین مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے سابق مرکزی صدر اور اس وقت مسلم لیگ (ن)ورکرز اینڈ لائرز آرگنائزیشن کے چیئرمین 80,75 سالہ خواجہ محمود احمد اور اُن کی آرگنائزیشن کے جوانسال سیکرٹری وسیم بٹ جی پی او چوک میں ایک روزہ علامتی بھوک ہڑتال کئے بیٹھے تھے۔ بھوک ہڑتالی کیمپ میں فیصلے کے خلاف اور نوازشریف سے یکجہتی کے لئے متعدد فلیکس، بینر لگے ہوئے تھے اور وکلاء اور مسلم لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موجودتھی۔ مسلم لیگ (ن) لائر فورم کے صدر نصیر بھٹہ ، ممبران پنجاب اسمبلی فرزانہ بٹ، نسرین نواز، صفیہ اسحاق ، لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری اور وائس چیئرمین یونین کونسل خواجہ سعد فرخ، ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات اور چیئرمین یونین کونسل عامر خان سمیت خواتین کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ صبح ساڑھے دس بجے دفتر آتے ہوئے ہم اس کیمپ کے پاس رکے تو دیکھا کہ کیمپ میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رانا محمد ارشد، سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمااحسان وائیں، استقلال پارٹی کے چیئرمین سید منظور علی گیلانی، سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری راجہ ذوالقرنین اظہار یکجہتی کے لئے موجودتھے۔
ایک طرف مسلم لیگیوں کا یہ جوش و خروش ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی فیصلے کے حق میں جشن منا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین سیکرٹریٹ میں سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان جنہوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں اُن کی ٹیم یہاں جوش و خروش سے جشن برپا کئے ہوئے ہے۔ اُدھر لاہور آفس میں ولید اقبال اور میاں حماد اظہر کی قیادت میں بھی فیصلے کے حق میں زور شور سے مہم چلائی جارہی ہے اور اس دفتر میں بھی جشن کا سماں ہے۔ جہاں تک نوازشریف کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے120 پر ضمنی الیکشن کا تعلق ہے۔ الیکشن کمشن نے اس کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے اور 17 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہوگا جبکہ کاغذات نامزدگی 10 اگست سے 12 اگست تک جمع کروائے جاسکیں گے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی ہدایت پر یہاں سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق وہ وزیراعلیٰ کا عہدہ رکھتے ہوئے الیکشن لڑسکتے ہیں اور قومی اسمبلی کا ممبر شپ ہونے کے بعد انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنا ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہباز شریف الیکشن 2018 تک صوبے میں ہی ذمہ داریاں پوری کرنے کے خواہاں تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد کی ہدایت پر انہیں امیدوار بننا پڑ رہا ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون اور شہباز شریف کے دست راست رانا ثنااللہ خاں تاحال انہیں پنجاب میں رکھنے کے لئے پارٹی قیادت سے اپیلیں کررہے ہیں۔ دیکھئے اس ضمن میں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں شہباز شریف یہاں سے امیدوار نہ بنے تو ممتاز مسلم لیگی کارکن ڈاکٹر اسد اشرف پارٹی ٹکٹ کے لئے فیورٹ ہوں گے۔ اُن کے بڑے بھائی جاوید اشرف شہید جنہیں بے نظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں مال روڈ پر شہید کردیا گیا تھا شہباز شریف کے پولیٹیکل سیکرٹری کی حیثیت سے اس حلقے میں فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور لوگ اُن کو آج بھی یاد کرتے ہیں، پی ٹی آئی نے یہاں سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو اور پیپلزپارٹی نے حافظ زبیر کاردار کو ایک مرتبہ پھر انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا شمار دبنگ سیاسی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ اُدھر پیپلزپارٹی لاہور کے صدر حاجی عزیزالرحمن چن نے حافظ زبیر کی انتخابی مہم کا آغاز ان کی رہائش پر منعقدہ تقریب سے کردیا ہے۔ اس حلقے کے ضمنی الیکشن میں کون کون میدان میں اترتا ہے اگلے ہفتے تک کاغذات نامزدگی داخل ہونے سے سامنے آجائے گا۔