احمد کمال نظامی
مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی بھاری اکثریت سے پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کی کامیابی تو نامزدگی کے دن سے ہی یقینی تھی۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) چونکہ اکثریتی پارٹی کا درجہ رکھتی ہے اس لئے مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتوں اور ایم کیو ایم نے بھی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیا۔جبکہ اپوزیشن کی جماعتوں نے علامتی طور پر یہ جانتے ہوئے کہ ان کی شکست یقینی ہے اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں جمہوریت پر یقین رکھتیں تو وہ شاہد خاقان عباسی کو فری ہینڈ دے کر ایک نئی جمہوری روایت قائم کر سکتیں تھیں جس کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا جاتا۔ شاہد خاقان عباسی 45روز ہ وزیراعظم ہیں اور انہوں نے منتخب ہونے کے بعد جو قومی اسمبلی سے خطاب کیا اور اپنا جو ایجنڈا پیش کیا اس ایجنڈا پر 45یوم میںعمل در آمد نا ممکن ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اسلحہ کلچر کے خلاف جو اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا کاش وہ اس پر پورا اتر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میاں محمد نواز شریف کے ساتھی ہونے کا بھر پور انداز میں مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہماری جماعت میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تحفظات کے باوجود تسلیم کرکے عملدرآمد کر دیا ہے۔ جبکہ عوام نے اس فیصلے کو مستردکر دیا ہے اور میاں محمد نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مختلف ریفرنس احتساب عدالتوں میں دائر ہو رہے ہیں لگتا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت میں تیزی آئے گی۔ جس کے نتیجہ میں عمران خان کے الزامات کی سیاست کے جواب میں مسلم لیگ (ن) اس کی اتحادی جماعتیں اور پیپلز پارٹی قریب آ جائیں گے۔ قومی اسمبلی میں مشترکہ طور پر ترامیم بھی لائی جا سکتی ہیں۔ 2018ء کے الیکشن کی گہما گہمی بھی اس ماحول میں شروع ہو جائیگی۔مسلم لیگ (ن) ایک مرتبہ پھر معیاد پورا نہ کرنے کا نعرہ لگا کر اور اپنے ترقیاتی منصوبوں خصوصاً سی پیک خطرے میں ہے ‘ شور بھی مچائے ہیں۔ اس طرح انتخابات2018ء کی مہم کے دوران ایک مرتبہ پھر سابقہ انتخابات کی طرح انتخابی معرکہ سر کرنے کی کوشش کر ے گی۔ آصف علی زرداری پہلے ہی یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمہ لیجانے کی بجائے اسمبلیوں میں جاناچاہئے۔ نئے وزیراعظم خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ ہم شائستہ زبان میں بات کرنا چاہتے ہیں جو گالی کی زبان میں بات کرتے ہیں اب ان پہ منحصر ہے کہ وہ کیسا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ نئے وزیراعظم کا آئندہ ٹارگٹ عمران خان ہیں ‘ جبکہ میاں محمد شہباز شریف جب بطور وزیراعظم اسمبلی میں آئیں گے تب پتہ چلے گا کہ پاکستان کی سیاست کا اونٹ کون سی کروٹ لیتا ہے۔ جو بات دکھائی دیتی ہے وہ یہی ہے کہ تصادم ہو گا۔ ہمیں میاں محمد شہباز شریف کا ایک بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم خونی انقلاب کی طرف بڑھ رہے، یہ تومعلوم نہیں کہ میاں محمد شہباز شریف کا اشارہ کس طرف تھا لیکن جو حالات پیدا ہو رہے ہیں خدا نہ کرے کہ میاںشہباز شریف کی بات سچ ثابت ہو۔جبکہ وہ مستقبل میں پاکستان کے وزیراعظم بننے والے ہیں۔ انہیں ایسی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جو اس انقلاب کے آگے دیوار تعمیر کر ے ورنہ انقلاب کی صورت میں نہ بانس رہے گا اور نہ بانسری بجے گی۔ہفتہ رفتہ کے دوران پاکستان کے تیسرے اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت اپنی اپنی عوامی قوت کا اظہار کرنے کیلئے احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کر رہی ہیں۔ فیصل آباد شہر اور ضلع میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی ماسوائے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے، سب پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ‘ فیصل آباد میں سپریم کورٹ کی طرف سے میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے باوجود آج بھی ان کا جادو سر چڑ ھ کر بولتا ہے۔ محسوس ہو رہا ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوں گے ‘ البتہ تحریک انصاف بھی ایک بڑھتی ہوئی سیاسی قوت کے طور پر آہستہ آہستہ قدم جما رہی ہے لیکن اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوسکی۔پنجاب میں میاں محمد نواز شریف آج بھی مضبوط سیاسی قوت کے طورپر سر فہرست ہیں۔ چوہدری برادران جو پنجاب میں خودکو ایک قوت قرار دیتے تھے ان کی سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی اگر اپنے حلقہ انتخاب سے جیت جائیں تو یہ سیاسی کرامت ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی کی رخصتی عدالتی سزا کی شکل میں سامنے آئی تو راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا جن کا تعلق پوٹھو ہارسے تھا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی والا سماں دکھائی دیا۔ اب میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو ’’عبوری وزیراعظم‘‘ بنایا گیا ہے اور انہوں نے اپنے عہدہ کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لاہور سے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد میاں محمد شہباز شریف مستقل وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے ‘ ایک بات اور بڑی حقیقت آمیز ہے کہ چاہے کوئی اس سے اختلاف کرے کہ پنجاب کے مذہبی لوگ بزنس مین کلاس سفید پوش صنعتکار پنجاب کا زمیندار اور پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ آج بھی نا اہلی کے باوجود میاں محمد نواز شریف کے پیچھے کھڑی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو سیاست نہیں آتی وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں انہیں یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ میاں محمد نواز شریف نے ایسی شطرنج کی بساط بچھائی ہے اور ایسی حکمت عملی اختیار کی ہے کہ عدالت عظمیٰ کا جو فیصلہ زیرو پانچ کا آیا ہے میاں محمد نواز شریف نے اس فیصلہ کو متنازع بنا دیا ہے اور عوامی حلقوں کی طرف سے اس فیصلہ کو انتقامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے جو عوامی فضا قائم ہوئی ہے اس نے میاں محمد نواز شریف کو ایک نئے روپ میں عوام میں کھڑا کر دیا ہے ‘ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جو افراد مسلم لیگ (ن) کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے دعوے کر رہے تھے ‘ ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور جو راہ فرار اختیار کرنے کا سوچ رہے تھے ‘ وہ ایک قدم بھی نہ اٹھا سکے۔ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس پر جو بھی قیاس آرائیاں کیں گئیں ‘ ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور حیران کن بات ہے کہ چوہدری نثار سابق وزیر داخلہ نے ابھی تک اپنے اعلان کے مطابق نہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا ہے اور نہ سیاست سے ریٹائرڈ ہونے کا اعلان کیا ہے بلکہ سابق تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ لاہور میں جو انتخابی معرکہ ہونے والا ہے اور میاں محمد نواز شریف نے خود انتخابی مہم کی قیادت کرنے کا اعلان کیا ہے جب وہ انتخابی جلسوں سے خطاب کریں گے تو یومیہ ایک نیا سے نیا انکشاف منظر عام پر آئے گا اور وہ عوامی عدالت میں اپنی صفائی پیش کریں گے۔ جبکہ پیپلزپارٹی ‘ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر راشدہ یاسمین کے خلاف اندر کھاتے مہم چلائے گی اور حق دوستی ادا کرے گی۔ لیکن یہ انتخاب پاکستان کی سیاست کا رخ تبدیل کرنے کا موجب ضرور قرار پائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ میاں محمد نواز شریف کی بحیثیت وزیراعظم تذلیل کی گئی انہیں گاڈ فادر تک قرار دیا گیا اور یہ کہتے ہیں حق بجانب کہ انہیں کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ اقامہ اور وصول نہ کی گئی تنخواہ کے نتیجے میں نا اہل کیا گیا۔ جبکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمہ آف شور کمپنیوں اور لندن اپارٹمنٹس کے حوالے سے تھا ۔ عوامی اور قانونی حلقوں میں ایک کمزور فیصلے کے نتیجے میں نا اہل قرار دینے پر جو سوالات جنم لے چکے ہیں اور یہ مطالبہ کہ نظر ثانی کی رٹ پٹیشن میں اس کا جائزہ لیا جائے ایک جائز مطالبہ ہے کیونکہ اس کیس پر تو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کیلئے جو ماہ عرصہ پڑا ہے گو یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت پوری کر چکی ہو گی ظاہر ہے یہ میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے باوجود ایسی جیت ہو گی جو مخالفین کیلئے پریشانی ہی نہیں بلکہ ان کی شکست کا باعث بھی بنے گی۔ اب جو نیا کھیل شروع ہو گا وہ صوبہ کے پی کے میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے میاں محمد نواز شریف وہی اقدامات اٹھائیں گے جو بھٹو نے سرحد میں جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کاخاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف صوبہ خیبر پی کے میں گورنر راج کی بجائے تحریک عدم اعتماد کا ہتھیار استعمال کر یں گے ‘ وطن پارٹی جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیاں اپنا اتحاد ہی قائم نہیں کریںگی بلکہ تحریک انصاف کے بعض ارکان تحریک کا ساتھ بھی چھوڑ جائیں گے جبکہ پنجاب میں قطعاً ایسا نہیں ہو گا ۔