میرا خیال ہے کہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہی رہیں گے۔ 2018ءکے الیکشن میں وزیراعظم بنیں گے۔نجانے تب سیاسی حالات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی رسک ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب سے استعفیٰ دیں۔ پھر الیکشن لڑیں۔ اگرچہ ان کے جیتنے کے امکانات بہت واضح ہیں۔ بہر حال یہ ایک رسک ہے جس کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کو 45 دن کا وزیراعظم بننے کی مبارکباد دینے کے بعد میں عرض کروں گا کہ وہ 45 دن میں 45 مہینوں کا کام کریں گے تو کیا کریں گے؟ یہ نواز شریف پر در پردہ ایک تنقید ہے کہ انہوں نے 45 برسوں میں بھی کچھ نہیں کیا۔ 45 دنوں کا کام بھی نہیں کیا۔ وزارت اعلیٰ پنجاب کے دن بھی اس اقتدار میں شامل کریں۔ شہباز شریف کے لئے بھی ایک پیغام ہے۔ مگر وہ کچھ نہ کچھ تو کرتے رہتے ہیں۔ شہباز شریف کے لئے یہ ایک چیلنج ہے۔
مگر شاہد خاقان عباسی کا وہی حال ہو گا جو اسی طرح شہباز کے انتظار میں دوست محمد کھوسہ کا ہوا۔ اس کے بعد ہی اس کے والد محترم بڑے کھوسہ صاحب نے اختلافات کا دروازہ کھولا۔ اب تک جو پوری طرح بند نہیں ہوا۔ مگر اس کا نقصان تو بظاہر کھوسہ فیملی کو ہوا۔ صرف چوہدری فیملی ہے جو بڑے نقصان سے بچ گئی۔ چوہدری شجاعت وزیراعظم بھی بن گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی پورے پانچ سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ وہ شاہد خاقان عباسی سے تو زیادہ مدت کے وزیراعظم تھے مگر مجھے لگتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی 2018ءکے الیکشن تک وزیراعظم رہیں گے۔ اگر الیکشن ہوئے تو؟ الیکشن نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ یہ پروپیگنڈا شہباز شریف کے لئے ہے کہ وہ سخت آدمی ہیں مگر پسند و نا پسند کے معاملے میں کہا جاتا ہے نواز شریف بہت ضدی ہیں۔ سیاست میں ضد نہیں چلتی۔ ضد کے لئے جائز، ناجائز کی تفریق نہیں ہوتی۔ مری کے دوست اورنگ زیب عباسی نے شاہد خاقان عباسی کے لئے بہت سی معلومات دی ہیں۔ میں انہیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ مری کے وزیراعظم عباسی صاحب کے لئے کارکن عباسی صاحب نے تقریب بھی کی۔ میں وہ بیان کرنے کی کوشش نہیں کروں گا۔
میرے خیال میں وزیراعظم پاکستان کے لئے سب سے موزوں اور مفید آدمی چوہدری نثار ہیں۔ یہ بات نواز شریف بھی جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ اب سنا ہے کہ حلقہ 120 لاہور سے شہباز شریف کی بجائے مریم نواز شریف الیکشن لڑیں گی۔ یہ بات شاہد خاقان عباسی کے لئے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے۔ میری رائے بہرحال یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی 45 دنوں کے لئے نہیں آئے، 45 دنوں میں وہ کیا کام کریں گے جو 45 مہینوں میں ہوسکتا ہے۔ یہ اعلان ہے یا ارادہ ہے، منصوبہ ہے یا خواہش۔
موجودہ وزیراعظم بہت اہم ہے کہ اس کے لئے کئی نام استعمال کئے گئے ہیں۔ 45 دنوں کا وزیراعظم، عبوری وزیراعظم، عارضی وزیراعظم اور ڈمی وزیراعظم۔ میں تو انہیں پاکستانی وزیراعظم کہوں گا ۔
میں برادرم شیخ رشید کو بھی مبارکباد دیتا ہوں، عمران خان نے انہیں اپنا امیدوار نامزد کیا جبکہ وہ تحریک انصاف میں نہیں ۔ یہ بات دونوں کے لئے مبارکباد کی بات ہے۔ اس پر تحریک انصاف کے کسی سیاست دان نے اعتراض نہیں کیا۔ افسوس خورشید شاہ پر ہے، جنہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو نقصان پہنچایا، مجھے یقین ہے کہ زرداری صاحب پاکستان میں ہوتے تو وہ خورشید شاہ کو ایسا نہ کرنے دیتے۔ میں شیخ صاحب کو اس شکست فاتحانہ پر مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ بھی بڑی بات کہ آدمی کو معلوم ہو کہ وہ ہار جائے گا مگر وہ میدان میں کھڑا رہے۔ مرد میدان کسی طور بھی فاتح سے کمتر نہیں بلکہ برتر ہے۔
میں کچا پکا مسلمان ہوں، عشق رسول کو ایمان سمجھتا ہوں۔ جب دل بھاری ہوتا ہے تو درود پڑھتا ہوں۔
مجھے ایک کتاب ملی ہے جس کا نام فضائل درود و سلام ہے۔ بہت خوبصورت شائع ہونے والی یہ کتاب عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے مرتب کی ہے۔ اس کتاب کے انتساب میں میرا نام ہے اور میرے عزیز دوست معروف مزاح نگار یوسف عالمگیر بن کا بھی نام ہے۔ محمد فاروق چوہان کی کتاب ”گردش ایام“ بہت فکر انگیز ہے اور چشم کشا حقائق پر مبنی ہے۔ چوہان صاحب کالم نگار ہیں، ان کی کتاب میری اس بات کی گواہی ہے کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے۔