کہاں گئے مری مصروف ساعتوں کے رفیق ؟

محسنِ انسانیت ؐ کا فرمان مبارک ہے کہ مصیبت انسان کی گفتگو سے وابستہ ہے؛ آدمی کے بڑے بول اسے مرواتے ہیں۔نوازشریف ہمیشہ طاقت کے نشے میں عوام سے دور رہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ناروے کا پرائم منسٹرعوام کے حالات جاننے کیلئے اوسلو میں ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ خلافت ِ راشدہ سے مثال نہیں ہے یہ آج کی دنیا میںاسی زمانے میں ہو رہا ہے۔ جمہوریت کڑے احتساب اور شفافیت کا نام ہے۔ یہ ملوکیت بھی نہیں کہ شاہی خاندان کے علاوہ بیس کروڑ کی آبادی میں کوئی وزیر اعظم ہی اہلیت نہ رکھتا ہوں۔ جمہور ی حکومت عوام کو اقتدار میں کھلے دل سے شامل کرتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے نام پر لوگوں سے دھوکا کیا گیا۔ قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو دولت کی لت میں ڈال کر ایک طرف ملک کو کسی احسن قانون سازی اور سمت سے محروم کر دیا اور دوسری طرف عوام کو مقامی سطح پر ترقیاتی عمل سے ہٹا دیا۔ بادشاہت میں پردے ہوتے ہیں مگر کیا تاریخ میں بڑے بڑے بادشاہ مٹ نہیں گئے؟کیا یہ ہمارے لئے سبق نہیں کہ وحی کے الفاظ یوں لکھے جاتے ہیں؛ اذھب الیٰ فرعون انہ طغیٰ۔ کہا گیا کہ جاؤ فرعون کی طرف وہ سر کش ہو گیا ہے۔ یہ ہر سرکش اور متکبر حکمران کیلئے تنبیہ ہے کہ اللہ کافروں کو برداشت کر لیتا ہے مگر بڑے بول بولنے والوں کو نہیں۔ہمارے حکمران اپنے گرد اتنی دیواریں بنا لیتے ہیں کہ حقیقت ان سے چھپ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو اس کے مصاحبوں نے اس کیلئے نوائے وقت الگ چھپوانا شروع کر دیا جس کی خبریں ایوب خان کی پسند کی ہوتیں۔ نواز شریف نے خوش آمدیوں کا ایک ٹولہ سڑک پر بٹھا دیا جو روز اس کو ایک فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ اور ہر روز سرکاری خرچ پر گالیاں ایجاد کرتا رہا حتٰی کہ انصاف کا بگل بج گیا۔ پھر نہ جانے یہ کہاں غائب ہو گئے۔ نواز شریف تیسری بار نا اہل ہوئے کیا کبھی انہوں نے اپنی ہی تاریخ سے سبق سیکھا؟شریفوں کے دور میں حکومت اور سرکاری خزانے اشرافیہ کے پاس رہے۔ عوام کے نام پر قرضے لئے گئے ۔ عوام کی کبھی صلاحتیں بڑھانے کی کوشش نہیں ہوئی۔ حدیث شریف میں قرضے کو دین کیلئے عیب کہا گیا۔دین کا چہرہ بگاڑنا ہو تو مسلمان قرضے لینے شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں ظلم یہ ہے کہ قرض لینے والے اور ہیں اور دینے والے کوئی اور۔ پاکستان کے اثاثے رہن رکھ کے قرضے لئے جا رہے ہیں جو پاکستان کی آئندہ نسلوں نے واپس کرنے ہیں۔ یہ سودی قرض اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔جیت لو نواز شریف اگر جیت سکتے ہو۔ حکمرانی لوگوں کی خدمت کا نام ہے۔ اشرافیہ یا اپنے خاندان کی ایمپائر بنانے کا نام نہیں۔ اقبال ؒ کہتے ہیں؛ خدمت پیغمبروں کا طور طریقہ ہے۔ اس کی اجرت لینا سودا گری ہے۔حکومت اللہ کی امانت ہے جو شخص اس امانت کو لوگوں تک پہچانے کا اہل نہیں ہے اسے اس امانت کو واپس خود ہی دے دینا چایئے؛ کیا ملک کا حکمران جواب دہی سے بچ سکتا ہے کہ جب اسے سلطنت دی جائے تو وہ کرپشن کو ہر محکمے میں خوب خوب پھیلنے دے ؟ اس کے زمانے میں کھیتیاں اجاڑی جائیں اور مافیا پلاٹ بناتا جائے جبکہ شہروں کے گرد غریبوں کی آبادیاں جڑی بوٹیوں کی طرح بغیر کسی نقشے یا ڈیزائن کے پھیلتی جائیں؟ کیا حکمرانوں سے ان عوام کی جان مال اور عزت کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا؟ انسانی نسل کی تباہی میں انہی حکمرانوں کا ہاتھ ہے جو عورتوں کو پنچائتوں سے فیصلے کرا کر بربادی کے حکم جاری کرتے ہیں۔ ایک تھانے دار کو معطل کرنے سے کیا اگلا واقع رک جائے گا؟ دعدہ بھی ایک دینی قرض ہے اور شریفوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ تھانہ پٹواری کا کلچر بدلی ہو گا ۔ دبئی آنے جانے کیلئے کسی ورک پرمٹ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عام لوگوں کو بھی ائر ٹکٹ یا ہوٹل بکنگ کے ساتھ ویزا مل جاتا ہے۔ پھر جناب کا ورک پرمٹ2015 تک validتھا۔ کس لئے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو دبئی ویزہ لینے کی کوئی تکلیف ہو سکتی ہے؟ نہیں۔ بلکہ اس ورک پرمٹ کے ساتھ ایک اکاؤنٹ بھی تھا جس میں باقاعدہ تنخواہ جاتی رہی۔ یہ وزیر اعظم کا خفیہ اثاثہ تھا۔اور کیا یہ conflict of interest نہیں ہے ؟ کیا کوئی سرکاری ملازم کسی غیرملک کی نوکری کے ساتھ سرکاری عہدے پر رہ سکتا ہے؟ نہیں۔ کبھی نہیں۔جناب اگر سپریم کورٹ رعایت نہ کرتی تو جعلی کاغذات پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں جمع کرانے کی ہی کئی سال قید کی سزا ہو سکتی تھی۔شکر ادا کریں سستے چھوٹ گئے ۔ تاہم ارد گرد کے ماحول سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مودی کوئی بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔پاکستان کا ایک میڈیا گروپ سارے پاکستان میں غلط خبریں دے کر افراتفری پھیلانیکی کوشش کر رہا ہے۔ تازہ ترین سرخی یہ دی گئی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان الحاق کا اب سوچیں گے کہ کس ملک کے ساتھ کیا جائے۔یہ زبردست انڈین چال ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ تو پاکستانی پرچم میں دفن ہو رہے ہیں اور یہاں انڈین پراپیگنڈا عام کیا جا رہا ہے۔یہ اتفاق ہے یا کوئی بڑا پلان؟ اقبال ؒ جاوید نامہ میں جو پیشن گوئیاں کرتے ان میںاپنے پسندیدہ شہر مرغدین کا ذکر کرتے ہیں کہ وہاں قلم بیچنے والے نہ ہونگے۔نہ ہی وہ اپنے قلم کو دروغ گوئی کی تشہیر کیلئے استعمال کریں گے۔ شاید یہ اشارہ آج کے قلم فروشوں کی طرف ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں یہ کام بھی ہو سکتا ہے ۔ آخری خبروں میں یہ پتہ چلا کہ شاہد خاقان عباسی کو عارضی وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے ۔ نواز شریف کا اس ملک پر احسان ہوتا اگر وہ ان کو پکا وزیر اعظم ہی بنا دیتے۔ کیا ن لیگ شریفوں کے وزیراعظم بنے بغیر نہیں چل سکتی؟ مجھے شہباز شریف کی وہ ویڈیو خوفناک نظر آتی ہے جس میں وہ جسٹس قیوم کو اپنے حق میں فیصلے کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے شخص کا پاکستان کا وزیر اعظم ہونا کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ نواز شریف مری چلے گئے ہیں۔ فرصت کے لمحات صحت افزا مقام پر خوب گزرتے ہیں:
کہاں گئے مری مصروف ساعتوں کے رفیق
صدائیں دیتی ہیں اب ان کو فرصتیں میری!

ای پیپر دی نیشن