جوچاہے پارلیمنٹ پر چڑھائی کردیتا ہے 58 ٹوبی کے نیاطریقہ آگیا چیئرمین سینٹ

Aug 03, 2017

کوئٹہ (بیورو رپورٹ+نیٹ نیوز+ این این آئی) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ اور پارلیمان کو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا‘ سب سے کمزور ترین ادارہ پارلیمان کا ادارہ ہے ‘ جو چاہتا ہے پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دیتا ہے۔ کبھی پارلیمان کو مارشل لاء سے ختم کردیا جاتا ہے۔ آج کل آپ دیکھ رہے ہیں ایگزیکٹو پارلیمان پر حملہ آور ہوتی ہے۔ جمہوری قوتوں نے آمر کے خلاف جدوجہد کی اور 58ٹوبی کو ختم کیا گیا۔ 58ٹوبی کو ختم کیا گیا تو ایک اور طریقہ کار سامنے آگیا۔ سویلین کو اسلام آباد‘ راولپنڈی میں بیٹھے لوگوں سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ ر ضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان فلاحی ریاست کے بجائے گیریژن اور سکیورٹی سٹیٹ بن گیا ہے، آئین میں کہاگیا ہے حکومت عوامی نمائندے چلائینگے لیکن کبھی پارلیمان کو مارشل لاء سے ختم کیا جاتا ہے تو کبھی ایک آمر 58ٹو بی کا سہارا لیکر جمہوریت کو ختم کردیتا ہے، اب ایک اور نیا طریقہ آگیا ہے جس سے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جارہا ہے، پاکستان کی عدلیہ ایگزیکٹو اور پارلیمان کو اپنی مقرر کردہ حدود میںکام کرنا ہوگا۔ ملک میں وفاقی حکومت ہے نہ بلوچستان میں صوبائی حکومت نظر آتی ہے، 1973ء کا آئین اداروں کی ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کی وجہ سے ڈگمگا گیا ہے، ملک سے دہشتگردی، غربت اور دیگر مسائل کے خاتمے کیلئے سینٹ کی جانب سے تمام اداروں کو دعوت دیتا ہوں وہ آئیں اور انٹرا انسٹیٹیوشنل ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ بدھ کو کوئٹہ میں شہید باز محمد خان کاکڑ فائونڈیشن اور سماجی تنظیم ان ریتھ کے اشتراک سے ’کوئٹہ کو دوبارہ امن کیسے دلایا جائے‘ کے عنوان سے منعقد ہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ چیئرمین سینٹ میاں رضار بانی نے کہاکہ ہم سی پیک کے مخالف نہیں ہیں مگر ہم آئین کے تحت شہریوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اگر شہید بازمحمد کاکڑ سمیت دیگر شہداء کو تحفظ حاصل ہوتا تو آج ہمیں دوسرے لوگوں کو سکیورٹی نہ دینی پڑتی۔ انہوں نے کہاکہ یہ تاثر بالکل درست ہے کہ وفاق اور بلوچستان میں حکومت نام کی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں ایگزیکٹو پارلیمان پر حملہ آور ہوتی ہے اور عدلیہ کے کام میں مداخلت کرتی ہے اور عدلیہ پارلیمان اور ایگزیکٹو پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے ان سب اقدامات نے پارلیمان کو انتہائی کمزور ادار ہ بنادیا ہے۔ آئین میں کہاگیا ہے کہ حکومت عوامی نمائندے چلائیں گے لیکن کبھی پارلیمان کو مارشل لاء سے ختم کیا جاتا ہے تو کبھی ایک آمر (2B)58 کا سہارا لیکر جمہوریت کو ختم کردیتا ہے۔ میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی عدلیہ، ایگزیکٹو اور پارلیمان کو اپنی مقرر کردہ حدود میںکام کرنا ہوگا۔ پاکستان جس نہج پر کھڑا ہے اس میں وہ اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا محتمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشتگردی کا شکار ہیں، ہم تمام لوگ شہداء کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، فرقہ پرستی، مذہب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہم اپنے نظریے کو نہ ماننے والے کو کافر قرار دے دیتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں قتل، شہادت اب کوئی انوکھی بات نہیں رہی نہ ہی اس پر کسی کو حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کہ تمام مسائل کی وجہ پنجاب ہے، پنجاب سے شکوہ کرنے سے پہلے ہم اپنے حکمرانوںسے شکوہ کریں جو پنجاب کے حکمرانوں کی کابینہ میں ان کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اپنے صوبے میں کام نہیں کرتے۔ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کے طورپر بنا تھا لیکن اب یہ قومی سلامتی کی ریاست بن گئی ہے۔ وکلاء کی عدلیہ آزادی کی جدوجہد کے بعد ہمیں پنجاب میں متشدد وکلاء اور متکبر جج ملے جنہیں بحال کروایا وہ اپنے ذاتی مفاد میں چل پڑے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمد خان شاہوانی، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے صوبائی امیر مولانا عبدالقادر لونی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ ،بزرگ سیاستدان عبدالحئی بلوچ ،ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر شاہ محمد جتوئی ،بلوچستان بار کونسل کے نائب صدر حاجی عطاء اللہ لانگو ایڈوکیٹ ،عبدالمتین اخوندزادہ ،لعل محمد کاکڑ ودیگر نے کہاکہ ہم کب تک اپنے کندھے سے ذمہ داری کا بوجھ اتارتے رہیں گے۔ ہمارے ملک کا سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا ہے اداروں نے جو بیج بوئے تھے آج وہ ہمارے خلاف کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب کو متحد ہوکر ظلم کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا ہمار بڑا بھائی پنجاب ہمیں دیوانے اور پاگل بھائی کی نظر سے بھی نہیں دیکھ رہا بلوچستان میں جو نوجوان غلط راستے پر چل پڑے یا ریاست کے مخالف ہوگئے یہ سب یہاںکے لوگوں کے ساتھ ہونے والے زیادتیوں کا نتیجہ ہے یہاں حق کی بات کرنے والے کو غدار سمجھا جاتا ہے۔

مزیدخبریں