سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت دینے اور پاک فوج کے تمام کمشنڈ افسران اور ان کی بیگمات کی شہریت کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا کہ قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک کوئی سرکاری افسر ملازمت نہیں کر سکتا۔ پھر جنرل راحیل شریف اور جنرل شجاع پاشا نے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بیرون ملک جا کر ملازمت کیسے حاصل کر لی۔ اس پر اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ قانون کے مطابق وفاقی حکومت‘ سول سرونٹس کو بیرون ملک ملازمت کی خصوصی اجازت دے سکتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے صورتحال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس حوالے سے قانونی پوزیشن بہرصورت واضح ہونی چاہئے۔ قبل ازیں اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد جنرل جہانگیر کرامت بھی ملازمت کے سلسلے میں امریکہ چلے گئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال میں سرکاری ملازمت کیلئے قانون میں گنجائش کا عندیہ جنرل جنجوعہ کے قومی سلامتی کا مشیر بننے سے بھی ملتا ہے۔ جنرل شجاع پاشا تو شاید وطن واپس آچکے ہیں جبکہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں 33 مسلم ممالک کی فورسز کی کمانڈ کر رہے ہیں۔ پاک فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان کے پاس انتہائی حساس راز ہوتے ہیں۔ ایسے ہی راز ان کے ماتحت اعلیٰ اور عام افسروں کے سینے میں بھی دفن ہوتے ہیں۔ سب نے رازوں کے تحفظ کا صرف دوران ملازمت ہی حلف نہیں اٹھایا ہوتا۔ یہ حلف تاحیات ہوتا ہے اور زندگی کے کسی موڑ پر حلف سے روگردانی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جنرل شجاع پاشا اور جنرل راحیل جیسے لوگ دوسرے ممالک گئے ہیں تو اس سے پاکستان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے لوگوں سے قومی رازوں پر کمپرومائز کا قطعی اندیشہ نہیں۔ایسے افراد کی ملک کیلئے ملک کے اندر اور باہر خدمات پر انگلی اٹھانے کا بھی کسی کو موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔ فوج میں بھرتی کے اشتہارات میں واضح لکھا ہوتا ہے کہ دہری شہریت کے حامل بھرتی کے اہل نہیں۔ سیکرٹری دفاع نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ کسی فوجی کی دہری شہریت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کمشنڈ افسران کی بیگمات کی شہریت کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ ممکن ہے کسی افسر کی اہلیہ کی دہری شہریت ہو‘ اس حوالے سے تفصیلات سپریم کورٹ کے سامنے رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
سابق جرنیلوں کی بیرون ملک ملازمت پر استفسارات
Aug 03, 2018