عمران خان کی کامیابی

پاکستان کی تاریخ کے منفرد الیکشن نے سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ کسی سیاسی شخصیت یا جماعت کی حمایت اور بات ہے جبکہ صورتحال کا تجزیہ الگ بات....تحریکِ انصاف کا سونامی ایک نیا منظر پیش کر رہا ہے۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں اور اُنکی جماعت قومی اسمبلی اور KPK کی بلاشرکتِ غیرے اکثریتی جماعت بن چکی ہے۔ موجودہ حالات میں شریف خاندان کا افسانہ ختم ہو گیا ہے۔ مریم نواز شدید مشکلات میں گِھر چکی ہیں۔ آنےوالے حالات پر منحصر ہے کہ تقدیر اُن کیلئے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ پنجاب میں بھی عمران کی جماعت کی حکومت آسان ہو گئی ہے۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت جو اپنے جنم اور پرورش کےلئے کسی سرمایہ دار یا جاگیر دار کی طفیلی نہیں بنی ، جسے پاکستان کے ایک مڈل کلاس شخص نے خونِ جگر سے توانا کیا، آج پاکستان کی سب سے بڑی نمایاں اور مو¿ثر جماعت بن کر اُبھری ہے۔ پھر یہ بھی کہ یہ جماعت کسی موروثی سیاست کی نمائندہ نہیں ہے۔عمران خان کے دونوں صاحبزادے لندن میں اپنی ماں جمائما کے پاس ہیں اور اُنہوں نے الیکشن میں ووٹ بھی نہیں دئیے، سیاست تو درکنار اس لئے موروثی سیاست کا فی الحال تو امکان نہیں۔ الیکشن کے دن تو کوئی رگنگ ہوئی نہیں البتہ پری پول رگنگ اور رزلٹ کے حوالے سے الزامات کا جائزہ لینا ممکن ہے۔ کسی کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے وفاق میں اور KPK میں تحریکِ انصاف کا اقتدار نوشتہ¿ دیوار بن چکا ہے۔ پنجاب بھی PTI کیوں چھوڑے گی۔ مگر عمران خان پنجاب میں وزیراعلیٰ کے تقرر کے حوالے سے کئی بار سوچیں گے۔ اگر تحریکِ انصاف کی نظر مستقبل پر ہے تو وہ شاید PP سے اتحاد نہ وفاق میں کرے گی نہ پنجاب میں‘ ظاہر ہے پی پی کا اپنا منشور ہے اور اپنا ایجنڈا ہے۔ گو زرداری صاحب سندھ پنجاب اور وفاق میں اتحاد کی خواہش کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف ایک منظم مُہم کے باوجود سندھ میں پی پی نے بھی زبردست فتح حاصل کی ہے....ایم کیوایم حیدر آباد کے علاوہ تقریباً ختم ہو گئی ہے اور پی ایس پی ہمارے پرانے تجزیوں کے عین مطابق کسی کارکردگی کا مظاہرہ ہی نہیں کر سکی۔مہاجر کارڈ کشش کھو چکا ہے، فاروق ستار کو سزا مل چکی۔ عامر لیاقت نے الیکشن جیت لیا۔ نواز شریف کواس بات کا بھی صدمہ ہو گاکہ اُنہوں نے پنجاب کے سوا تین صوبوں میں اپنی جماعت کی تنظیم کے لئے کبھی جستجو ہی نہیں کی....ورنہ پنجاب میں مسلم لیگ اور PTI تقریباً برابر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو مسلم لیگ ن پر برتری KPK اور سندھ کی وجہ سے ہے۔ ذراغور کیجئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، اسٹیبلشمنٹ نئے حکمرانوں کیلئے اچھی رائے رکھتے ہیں۔ عدلیہ کی رائے بھی اس حوالے سے واضح ہے۔یوں پاکستان کی خارجہ پالیسی، دفاعی معاملات اور اندرونِ ملک اصلاحِ احوال کے سلسلے میں یکجہتی دکھائی دے گی۔ ہم پہلے پیری مریدی کے قائل نہیں تھے مگر عمران خان کی کامیابی کے بعد ہمیں ان روحانی معاملات کے مطالعے پر توجہ دینی ہو گی۔ عمران خان کیخلاف سارے وار ضائع ہو گئے۔
اگست کا مہینہ تو مبارکبادوں ، حکومت سازی، وزارتوں اور گورنروں کی سلیکشن میں گزر جائےگا۔ عمران خان نے وعدے بھی بلند بانگ کئے ہیں ان وعدوں کی تکمیل ایک مشکل مرحلہ ہے ۔ عمران خان کی شیروانی کے بھی چرچے ہیں جو وہ حلف اٹھاتے ہوئے زیب تن فرمائیں گے ۔ مگر کیا ضروری ہے کہ شیروانی یا سوٹ ہی پہنیں۔ یہی سفید کرتا اور شلوار کیوں نہیں ؟ سادگی کا نمونہ.... لباس کیا ان کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کریگا۔ عمران خان تین بار حقیقی ہنی مون منا چکے ہیں اب اقتدار کے حوالے سے وہ کسی ہنی مون کو مشکل سے ترجیح دینگے ۔ معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے جناب نواز شریف کی خلائی مخلوق اب مو¿دب ہو کر پرائم منسٹر عمران خان کو سلیوٹ کر ےگی۔ اقتدار تحفہ بھی ہے اور آزمائش بھی ۔ احتساب پر عمران خان حضرت عمر کے حوالے سے واقعات کو دہراتے رہے ہیں اب خود عمران خان کو سادگی ، ایمانداری اور دیانتداری کی مثال بن کر قوم کو دکھانا ہوگا ، اس میں شک نہیں کہ عمران خان نے پاکستانی سیاست میں شامل ہونے کا سفر اکیلے ہی شروع کیا تھا۔ ہمیں حیدر آباد کا وہ دن یاد ہے جب عمران خان اپنے گلوکار دوست سلمان کےساتھ میرے گھاٹ کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے تشریف لائے ۔ انکی آنکھیں تلاش کر رہی تھیں کہ انہیں کوئی راستہ مل جائے تاکہ وہ سیاست کی دنیا میں قدم رکھ سکیں ۔ نماز جمعہ کے بعد وہ نصف گھنٹہ خاموشی کے ساتھ مسجد کے باہر کھڑے رہے بعض افراد نے انہیں پہنچانا بھی مگر زیادہ لفٹ نہیں کرائی ہم بھی دور سے یہ منظر دیکھتے رہے۔ آج کا عمران خان ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرا ہے۔ حیدر آبا دمیں اب بھی تحریک انصاف کو ئی کامیابی حاصل نہیںکر سکی مگر کراچی میں تحریک انصاف نے اپنے وجود کا بھرپور احساس دلایا ہے۔ کبھی دن بڑے ہوتے ہیں کبھی کی راتیں ۔ اقتدار کے سفر میں عمران خان تاریخ بھی بنا سکتے ہیں یا محض تاریخ کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ یہ انکی سوچ اور کارکردگی پر منحصر ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت نے انہیں بڑی محبت اور خلوص نیت سے منتخب کیا ہے وہ ایک امید بن کر آئے ہیں غریبوں ناداروں اور بیروزگاروں کی ایک فوج ظفر فوج عمران کو تک رہی ہے۔ ایک صاحب احساس عمران خان ضرور DELIVERکرینگے ۔ وہ قائداعظم اور اقبال کے نقش قدم پر چل کر قوم کو ایک عظیم قوم بنا سکتے ہیں ۔ اسکی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ....
تو رہ نور دشوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

ای پیپر دی نیشن