کچھ حالیہ انتخابات کے بارے میں!

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 25 جولائی کو انتخابات کا مرحلہ بھی مجموعی طورپر پُرامن طورپر عبور کر لیا گیا ہے۔ بلوچستان میں حملے میں کافی شہادتیں ہوئیں مگر اسکے باوجود بلوچ عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ بھرپور طریقے سے انہوں نے بھی گھروں سے نکل کر حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا۔ اے این پی پر حملے میں بھی ہارون بلور شہید ہوئے۔ بلاشبہ حالیہ انتخابات کے پُرامن‘ شفاف انتخابات کا سہرا ہماری سکیورٹی فورسز اور بالخصوص پاک آرمی کے سر ہے۔ پی ٹی آئی اکثریت کے ووٹ لیکر سامنے آئی۔ غیرملکی اداروں اور فافن نے بھی شفافیت کو تسلی کیا۔ جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ کبھی ایک گروہ یا پارٹی کو کارکردگی کی بنیاد پر عوام منتخب کرتی ہے‘ کبھی دوسری پارٹی یا گروہ کو۔ مہذب ممالک میں اس کو جمہوریت تصور کیا جاتا ہے۔ اپنی شکست کو بھی خوشدلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب اقتدار سے چمٹے رہنے کا نام ہے۔ اگر جیت گئے تو خوشی کی انتہا نہیں ہوتی اور ہار گئے تو دھاندلی کا رونا رویا جاتا ہے۔ ہم حالیہ انتخابات میں اے این پی کے غلام احمد بلور صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے عمران خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوئے‘ لیکن انہوں نے خوشدلی ‘ فراخدلی کے ساتھ عمران خان کے مقابلے میں اپنی شکست کو تسلیم کر لیا۔ کاش کہ دیگر سیاستدان بھی غلام احمد بلور صاحب سے رہنمائی لیتے۔ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم ان کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آئے خواہ آمر ہو یا جمہوری‘ یہ ہمیشہ اقتدار میں دکھائی دیتے ہیں مگر اس دفعہ عوام نے انہیں پسند نہیں کیا۔بلاشبہ سابقہ ایم کیو ایم تو ایک دہشتگرد جماعت تھی جس نے کراچی کے امن کے ساتھ معیشت کا بھی ستیاناس کر یا تھا۔ ان کا لیڈر الطاف ”را“ کا ایجنٹ اور پاکستان دشمن ہے۔رینجرز کی کاوشو ںسے کراچی میں امن بحال ہوا ہے۔ کریڈٹ کوئی بھی لینا چاہے‘ خوشی سے لے سکتا ہے مگر یہ کام سکیورٹی فورسز کی شہادتوں سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اس سے قبل ہر الیکشن میں ایم کیو ایم کی مصدقہ جیت ہوتی تھی۔ بندوق کی نوک پر ووٹ اور نوٹ وصول کئے جاتے تھے۔ اب کراچی کا ماحول بدل چکا ہے۔ ایم کیو ایم کے حصے بخرے بھی ہو چکے ہیں۔ اب عوام نے کارکردگی کی بنیاد پر اور مثبت امید کے ساتھ ووٹ دیئے ہیں۔ سابقہ ایم کیو ایم کی کارکردگی میں پاکستان دشمنی اور لوٹ کھسوٹ و قتل و غارت گری کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔ اب چہرے وہی ہیں‘ مگر نام بدل دیئے گئے ہیں۔ لہٰذا موجودہ ایم کیو ایم کو اپنی سابقہ کارکردگی پر نظر رکھنا ہوگی اور اپنی شکست کو بخوبی تسلیم کرنا ہوگا۔ پہلے کی نسبت عوام بہت زیادہ باشعور ہو چکے ہیں۔ یہی حال مولانا فضل الرحمن صاحب کا ہے۔ کشمیر کمیٹی کی چیئرمین کی کرسی اب ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ کسی بھی اور سیاسی پارٹی کی حکومت ہوتی تو ”مولانا“ نے راستہ تلاش کر ہی لینا تھا۔ مگر عمران خان اور ”مولانا“ کی ویسے بھی نہیں بنتی۔ اب ”مولانا“ نے اے پی سی بلائی جس میں پی پی پی کے سوا سب ہارے ہوئے شریک ہوئے۔ فیصلہ ہوا کہ ہم حلف نہیں اٹھائیں گے۔ ”مولانا“ اور سراج الحق صاحب نے تو ویسے بھی حلف نہیں اٹھانا تھا۔ حلف تو کامیاب لوگ اٹھاتے ہیں۔ بہرحال ”مولانا“ فضل الرحمن صاحب دبے لفظوں میں فوج کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ سراسر بہتان ہے۔ ”مولانا“ ماشاءاللہ شریعت کے پیروکار بھی ہیں۔ بہتان کتنا بڑا گناہ ہے۔ بخوبی جانتے ہیں ہم نے ”مولانا“ کی سیاست کو بخوبی دیکھا ہے کہ پہلے کسی بھی حکومتی پارٹی کے ساتھ رہ کر مزے لیتے رہتے ہیں اور جب اس پارٹی کی طرف سے ذرا سی بھی شکایت ہوتی ہے تو ”شریعت کے نفاذ“ کا واویلا شروع کردیتے ہیں۔ (ن) لیگ اور پی پی پی ”تحفظات“ کے باوجود جمہوریت کا عمل جاری رہنے کے حق میں ہیں مگر ”مولانا“ انتشار کے موڈ میں ہیں۔ ” آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا“
جب چودھری نثارکو جیپ کا نشان دیا گیا تو ایک پارٹی کی طرف سے بہت شور مچایا گیا ۔ پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کو میڈیا میں آکر وضاحت کرنا پڑی کہ یہ ہماری جیپ کا نشان نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔ ہمارا کام تو الیکشن کمشن کے حکم کےمطابق صرف سکیورٹی فراہم کرنا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر جیپ کا نشان مشکوک تھا تو چودھری نثار بھاری اکثریت سے کیوں ہارتے؟ حالانکہ چودھری نثار کے عزیزواقارب آرمی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں۔ اسی طرح مصطفی کمال نے پی ایس پی کے نام سے جب پارٹی بنائی تو تب بھی یہ ہی واویلا ہوا کہ یہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا کام ہے۔ اگر یہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کا ہوتا تو مصطفی کمال اس طرح کیوں ہارتے؟ انہیں تو بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنا چاہئے تھا مگر پی ایس پی ایک سیٹ بھی نہیں لے سکی۔ یہ اب 2018ءہے۔ میڈیا کا دور ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا راج ہے۔ عوام کافی حد تک باشعور ہو چکے ہیں۔ اب عوام صرف لفاظی پر یا پیاری پیاری تقریروں کے جال میں نہیں پھنستے۔ اب عوام کام چاہتے ہیں۔ اپنے مسائل کا حل اور بنیادی ضروریات چاہتے ہیں۔ لیاری پی پی پی کا گڑھ ہے۔ بلاول زرداری وہاں سے ہارے ہیں۔ الیکشن سے قبل ہم خود لیاری جا کر عوام سے ملے تھے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں‘ ”جئے بھٹو“ کے نعرے لگا لگا کر ہماری زبانیں بھی اُکتا گئی ہیں مگر ہمارا کبھی کوئی ایک کام بھی نہیں ہوا۔ سندھ میں ابھی بھی جہالت کا راج ہے۔ انہی نعروں کی بنا پر عوام سے ووٹ لئے جاتے ہیں مگر کب تک اندھیرنگری کا راج رہتا ہے۔آخر سویرا بھی ہونا ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام سیاسی پارٹیوں کو خوشدلی کے ساتھ اپنی جیت ہار کو تسلیم کرنا چاہئے۔ ہاں جن کو تحفظات ہیں‘ ان کو حل کرنے کیلئے تمام قانون اصولی راستے اپنانے چاہئیں۔ عمران خان نے جو پہلی تقریر کی ہے‘ بہت ہی اچھی اور حقیقت پر مبنی تھی۔ بہت ہی اچھی باتیں کی گئیں۔ خارجہ پالیسی بھی واضح کی۔ یہ کہنا کہ میرے خلاف جو ذاتی پراپیگنڈا ہوا میں سب بھول چکا ہوں۔ کیونکہ میرے ملک کا مسئلہ میری ذات سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہ ہم کسی سے بھی سیاسی انتقام نہیں لیں گے۔ دھاندلی کے بارے کہا کہ جس کو بھی شک ہو ہم سب حلقے کھلوانے کیلئے ساتھ ہیں۔ ہمارے خیال میں اتنی بڑی آفر کے بعد ”مولانا“ کو اے پی سی بلانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

ای پیپر دی نیشن