1985ءکے انتخابات کے بعد فیصل آباد میں قائم ایشیا کی سب سے بڑی رہائشی کالونی غلام محمد آباد سے منتخب موٹرسائیکل پر سوار ایک رکن قومی اسمبلی حنیف انصاری تانگہ سے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقت اس حلقے کو این اے 70 کہا جاتا تھا لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ حنیف انصاری کی وفات کے بعد ان کا ایک قریبی ساتھی اس حلقے سے پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے ہوئے سدابہار ایم این اے کا خطاب حاصل کر لے گا۔ ہماری مراد مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی حاجی محمد اکرم انصاری سے ہے۔ حاجی محمد اکرم انصاری حنیف انصاری مرحوم کے بعد 1985ءکے انتخابات میں تو اس لئے حصہ نہیں لے سکے کہ کچھ عرصہ بعد ہی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں لیکن انہوں نے اپنا پہلا الیکشن 1988ءمیں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر لڑا مگر شکست کھا گئے۔ اس کے بعد 1990ءمیں آئی جے آئی، 1993ئ، 1997ئ، 2008ءاور 2013ءمیں بھاری اکثریت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کی وفاقی کابینہ میں انہیں وزیرمملکت برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری بنا دیا گیا۔ پرویزمشرف دور میں ہونے والے 2002ءکے انتخابات میں گریجوایشن کی ڈگری نہ ہونے کے باعث مسلم لیگ(ن) کے سابق وفاقی وزیرداخلہ راجہ نادر پرویز نے اس حلقے سے الیکشن لڑا اور بعدازاں اسی حلقے پر مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اختلاف کی بناءپر پارٹی چھوڑ گئے۔ اس مرتبہ 25جولا©ئی کو ہونے والے انتخابات میں حاجی محمد اکرم انصاری کو اس حلقہ این اے 107 میں تحریک انصاف کے 2013ءکے انتخابات میں فیصل آباد ضلع سے واحد رکن صوبائی اسمبلی شیخ خرم شہزاد نے شکست سے دوچارکیا ہے اور یہ صورت حال مسلم لیگ(ن) کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے شہر کے لئے ایک تعجب کا باعث ہے کہ جس رکن قومی اسمبلی کو سدابہار ایم این اے کہا جاتا تھا وہ کیسے ہار گیا۔ حاجی اکرم انصاری کے علاوہ فیصل آباد میں دیگر وزراءمملکت عابد شیرعلی، رانا محمد افضل خاں اور طلال چوہدری بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں پی پی 113 کی اپنی مستقل اور آبائی نشست سے شکست کھا چکے ہیں۔ اس سیاسی کشمکش نے فیصل آباد جو 2013ءکے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کا اس انداز میں قلعہ ثابت ہوا تھا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر مسلم لیگ(ن) نے کلین سویپ کیا تھا لیکن ایک نشست پر ان کے ایک امیدوار کی نااہلی کے بعد ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے شیخ خرم شہزاد جیت گئے تھے۔ فیصل آباد کے اس قلعہ میں تحریک انصاف نے واضح ڈنڈ ڈالا ہے اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر این اے 103 جہاں ایک امیدوار کی خودکشی کی وجہ سے الیکشن نہیں ہوئے اس کے علاوہ واضح برتری حاصل کی ہے۔ این اے 101 جہاں سے مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی عاصم نذیر چوہدری آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی خبریں آ رہی ہیں کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو سکتے ہیں البتہ تحریک انصاف نے فیصل آباد کی قومی اسمبلی کی پہلی نشست اور اس کے دونوںذیلی حلقوں پر سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری افضل ساہی کے بھتیجے اور بیٹے تینوں کو ٹکٹیں دی تھیں اور یہ تینوں شکست سے دوچار ہو گئے۔ فیصل آباد کے صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں کی سمن آباد کے حلقہ پی پی 113 میں شکست کی اصل وجہ سیاسی مبصرین کے مطابق ان کے ختم نبوت اور حج طواف وغیرہ کے بارے میں متنازعہ بیانات ہیں اور یقینی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ فیصل آبادمیں رانا ثناءاللہ خاں نے مسلم لیگ(ن) کے اس قلعے کو شدید نقصانات سے دوچارکیا ہے۔ عابد شیرعلی سابق وزیرمملکت برائے توانائی کے حلقے این اے 108 میں رانا ثناءاللہ کا پی پی 113 بھی شامل ہے لہٰذا جائزے کی بنیاد پر واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عابد شیرعلی کی شکست کی ایک بڑی وجہ بھی رانا ثناءاللہ خاں ہیں تاہم مسلم لیگ(ن) کے ایک اور سابق وزیرمملکت رانا محمد افضل خاں گو تحریک انصاف کے امیدوار اور پیپلزپارٹی کے سابق سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد سے شکست تو کھا گئے لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ رانا افضل کی شکست کے پیچھے رانا ثناءاللہ خاں کا گروپ خاصا متحرک تھا۔ انہوں نے اپنے گروپ کے کارخاص ملک محمد نواز سابق ایم پی اے جو خود ان انتخابات میں تین متواتر کامیابیوں کے بعد شکست سے دوچار ہوئے ہیں ان کے بھائی میئر رزاق ملک کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کی صورت میں رانا افضل خاںکی شدید مخالفت کرائی اور بالاخر یہ مخالفت مسلم لیگ(ن) کی مخالفت قرارپا گئی۔ جڑانوالہ کا حلقہ این اے 102 میں طلال چوہدری کی شکست کی بڑی وجہ ان کا مسلسل پانچ سالوں تک حلقے سے غائب رہنا اور دوسری طرف نئی حلقہ بندیوں کے بعد جڑانوالہ کے سابقہ دو حلقے این اے 76 اور 77 کا ملاپ ہے جس پر مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی عاصم نذیر چوہدری ناراض ہو کر آزاد حیثیت سے این اے 101 چک جھمرہ سے میدان میں اترے اور انہوںنے بھی طلال چوہدری کو کئی محاذوں پر نقصان پہنچایا لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑی گی کہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیر اور تحریک انصاف کے طلال چوہدری کے مقابلے میں امیدوار نواب شیر وسیر حلقے میں ایک مضبوط امیدوار تھے جس کی وجہ سے طلال چوہدری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فیصل آباد میں رانا ثناءاللہ خاں اور چوہدری شیرعلی کے مسلم لیگ(ن) کے دو دھڑوں کے مابین اختلافات کی گونج دو سال قبل بلدیاتی انتخابات کے دوران پورے ملک میں سنائی دی تھی۔ چوہدری شیرعلی فیصل آباد میں مسلم لیگ(ن) کو مضبوط کرنے کے بانیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ شریف برادران کے قریبی عزیز ہیں لیکن رانا ثناءاللہ خاں نے 2008ءسے 2013ءتک دونوں انتخابات میں پنجاب میں اہم مقام حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) اور فیصل آباد میں چوہدری شیرعلی گروپ کو شدید نقصان پہنچایا جس کا نتیجہ آج 25جولائی کے انتخابات کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن کے طور پر تحریک انصاف نے اپنا ووٹ بینک پانچ سالوں میں وسیع کیا لیکن فیصل آباد میں چار وزراءمملکت اور خود سابق صوبائی وزیرقانون کی اپنی مستقل اور آبائی نشست پر ناکامی کی اندرونی داستان یہی ہے۔ رانا ثناءاللہ خاں این اے 106 میں قومی اسمبلی کے حلقے میں جیت تو گئے ہیں لیکن سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ شہر اور پنجاب کی سیاست سے باہر ہو گئے ہیں کیونکہ این اے 106 فیصل آباد شہر نہیں بلکہ ضلع کا ایک دیہی حلقہ ہے۔