چند دن پہلے نوجوان سپورٹس جرنلسٹ ثناءاللہ خان نے فیس بک پر لکھا"مجھے یاد ہے عمران خان جب نواز شریف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنے پر تھے انہوں نے کرکٹرز کو دعوت دی لیکن کوئی انکے ساتھ کھڑا نہ ہوا اب سارے انہیں مبارکباد دینے کے لیے لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ وسیم اکرم اور عبدالقادر نے انہیں ہر جگہ سپورٹ کیا"۔
ہمیں یاد ہے جب اسلام آباد میں دھرنا جاری تھا پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکا کے دورے پر تھی اس سیریز کی کوریج کے لیے ہم ٹیم کے ساتھ تھے۔ برادرم یوسف انجم،ثنا خان اور اظہر مسعود خان بھی ہمراہ تھے۔ سری لنکا میں بھی ہم سے عمران خان کے دھرنے بارے سوالات ہوئے وہاں بھی لوگوں میں بھی اس دھرنے کے حوالے سے خاصی دلچسپی تھی۔ کچھ کرکٹرز نے اس دھرنے کو سپورٹ بھی کیا تھا فاسٹ باولر اعزاز چیمہ نے دھرنے میں شرکت کے لیے لاہور سے اسلام آباد کا سفر کیا۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جس انداز میں اب مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے اس تعداد اور شدت کے ساتھ کرکٹرز نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے اس دھرنے میں اپنے کپتان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اب چونکہ عمران خان کی جماعت نے کامیابی حاصل کر لی ہے ہر گذرتا منٹ انہیں وزارت عظمی کے منصب کے قریب لے کر جا رہا ہے تو "سکپر" سے ملاقات پر کرکٹرز کو کسی اعلی شخصیت کے ناراض ہونے کا خدشہ یا خوف نہیں ہے سو سب اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عام انتخابات سے پہلے بھی اعلانیہ انکی حمایت کرنیوالے زیادہ نہ تھے اکثریت نے عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے صرف ووٹ کاسٹ کرنے کی ترغیب دی۔ موجودہ کرکٹرز میں سے آل راونڈر محمد حفیظ کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے"کپتان" کو آل آوٹ سپورٹ کیا انکی اہلیہ نے عمران خان کی کمپین کی محمد حفیظ کے بچے بھی پاکستان تحریک انصاف کے کھلاڑی بنے نظر آئے۔ جارح مزاج اوپننگ بلے باز عمران نذیر کا شمار بھی پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے پرجوش حامیوں میں ہوتا ہے۔
جہاں تک تعلق وسیم اکرم اور عبدالقادر کا ہے یہ حقیقت ہے ان دونوں نے ہمیشہ عمران خان کو سپورٹ کیا، انکا ساتھ دیا، وسیم اکرم کے حوالے بعض معاملات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عمران خان سے انکی محبت، وابستگی اور جذبات یقینا خالص ہیں وسیم اکرم دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں بھی اپنے کپتان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ عمران خان کی تربیت اور انکی قائدانہ صلاحیتوں کے آج بھی معترف ہیں۔عبدالقادر بھی ہر محاز اور ہر میدان میں عمران خان کے ساتھ جمے اور ڈٹے رہے ہیں۔ لیگ سپنر نے ہمیشہ اپنے کپتان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کے بارے بات کرتے ہوئے عبدالقادر کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے۔ رمیز راجہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کپتان کے اقدامات کی تائید کرنیوالوں میں شامل رہے ہیں بلکہ رمیز راجہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اس بات پر شدت سے یقین رکھتے تھے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب عمران خان سیاسی میدان میں بڑی کامیابی حاصل کریں گے اور وزارت عظمی کا منصب بھی حاصل کریں گے۔ چند دن قبل رضا راشد بتا رہے تھے کہ دو ہزار سولہ میں پاکستان سپر لیگ کے دوران وہ رمیز راجہ کے ساتھ ایک ڈنر میں شریک تھے عمران خان کے حوالے سے افتتاحی بلے باز نے کہا کہ لوگوں کی قسمت کی لکیریں ہاتھ میں ختم ہو جاتی ہیں عمران خان کی قسمت کی لکیر انکے ہاتھوں سے بدن میں گھومتی ہے اور پاوں تک جاتی ہے۔ رضا راشد نے بتایا کہ گفتگو میں شریک افراد کی اکثریت عمران خان کے سیاسی مستقبل کے حوالے خدشات کا شکار تھی لیکن رمیز راجہ پرعزم تھے کہ"سکپر" ایک دن سیاسی میدان میں بڑی کامیابی ضرور حاصل کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر تمام کرکٹرز میں منفرد حیثیت میں سامنے آئے ہیں انکے ساتھ یا انکے بعد آنیوالے آج بھی انکے سحر میں مبتلا ہیں۔ یہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت ہے کہ اپنے وقت کے کامیاب اور تاریخ ساز کھلاڑی بھی انہیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں جس تعداد اور انداز سے انہیں مبارکبادیں مل رہی ہیں اس سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ شکست ایسا یتیم بچا ہے جسے گود لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا جبکہ فتح کو سب بڑھ کر گلے لگاتے ہیں۔ اس کامیابی سے عمران نے ایک مرتبہ پھر سب کو گلے لگنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ "آئی کے" نے انتخابات میں حصہ لیا ہو اس سے پہلے بھی وہ اس میدان میں کئی مرتبہ اترے کبھی بری طرح ناکام رہے کبھی تھوڑے کامیاب لیکن کوئی ملنے گیا نہ ساتھ کھڑا ہوا اب وہ کامیاب ہوئے ہیں تو سب راستے بنی گالا کو جا رہے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر اشرف علی بتا رہے تھے کہ ایک مرتبہ وہ ٹرائلز لینے عمران خان کے آبائی حلقے میانوالی گئے جب شام کے وقت عمران وہاں آئے تو کئی لوگوں نے ان سے شکایت کی سلیکٹر نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے باوجود ایک سیٹ ہونے کے عمران خان نے اپنے ووٹرز کے بجائے میرا ساتھ دیا اور کہا کہ میں اشرف علی کو پندرہ سال سے جانتا ہو یہ بے ایمانی نہیں کرتا۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نوے کی دہائی میں مختلف سیاسی جماعتوں کی پیشکشوں کے باوجود سیاست کے میدان سے دور رہنے والا شخص اپنی سیاسی جماعت بنائے گا اور پھر عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کر کے وزارت عظمی کے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر سامنے آئے گا۔ کرکٹ تجزیہ نگار چودھری جاوید الہی کہتے ہیں کہ "عمران خان سادہ،ایماندار، محب وطن اور ملکی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں وہ نوجوانوں کے لیے امید ہیں۔ انہوں نے کرکٹ میں ایمانداری کو پروان چڑھایا، نیوٹرل امپائرنگ کے لیے آواز بلند کی، برطانیہ میں آئن بوتھم کے خلاف کیس جیتا، وہ کامیابیاں حاصل کرتے رہے آگے بڑھتے رہے۔ سب سے بڑھکر کہ قدرت ان پر مہربان ہے وہ مشکلات میں پھنستے ہیں لیکن اس میں سے نکل آتے ہیں مضبوط قوت ارادی کے مالک ہیں۔ سب کہتے تھے کہ شوکت خانم نہیں بن سکتا وہ بنا یونیورسٹی بنی، سیاسی جماعت بنائی جدوجہد کی اور آج اس مقام پر ہیں۔ انکا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے کیونکہ انکا مقابلہ روایتی، شاطر اور پیسہ بنانیوالے سیاستدانوں سے ہے۔ انکے مخالفین کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں وہ انہیں بہت تنگ کریں گے عمران خان کی توجہ مخالفین کے بیانات اور جھوٹی باتوں کے بجائے اپنے ہدف پر رہنی چاہیے۔ وہ ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں نیا سیاسی کلچر اور طرز سیاست متعارف کروا سکتے ہیں میں ان کے لیے دعا گو ہوں"۔
عمران خان نے ہمیشہ نئی منزلیں تلاش کی ہیں ایک مقصد حاصل کرنے کے بعد نئے اہداف کا تعین اور ان کے حصول کے لیے جان توڑ محنت، پختہ یقین انکی شخصیت کا خاصہ ہے۔ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انکا اگلا ہدف ملک و قوم کو درپیش مسائل حل کرنا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ محنتی اور قسمت کے دھنی ہیں دعا ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو حقیقت میں بدلیں۔ ہمیشہ کی طرح قسمت ان کا ساتھ دے اور وہ دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھنے کا فریضہ انجام دیں۔ آمین
پاکستان زندہ باد!!!!!!