اسلام آباد ( جاوید صدیق) گزشتہ روزاپوزیشن جماعتوں کے مشاورتی اجلاس میں پیپلز پارٹی نے یہ موقف اختیار کیا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی حکومت کو کچھ عرصہ موقع دیا جانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے عوام سے جو بلند بانگ دعوے کئے ہیں وہ پورے کرسکیں گے یا نہیں اگر وہ یہ دعوے پورے نہ کرسکے تو ان کے خلاف احتجاج شروع کیا جانا چاہیے۔ جب کہ متحدہ مجلس عمل اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اے این پی اور پختونخوا ‘ ملی عوامی پارٹی پہلے دن سے ہی عمران خان حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے حق میں ہیں۔ قابل اعتبار ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ ایم ایم اے‘ (ن) لیگ‘ اے این پی اور پختونخوا‘ ملی عوامی پارٹی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے حق میں ہیں ان کا موقف ہے کہ پہلے روز اپوزیشن جماعتیں سپیکر کے ڈائیس کے سامنے احتجاج کریں اور دھاندلی زدہ الیکشن نامنظور‘ کے نعرے بلند کریں۔ یہ تجویز بھی زیر غور رہی کہ انتخابی دھاندلی کے خلاف اپوزیشن ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کریں۔ جس دن عمران خان بطور وزیراعظم حلف اٹھائیں اس روز بھی احتجاج کیا جائے الیکشن کمیشن کے سامنے بھی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اپوزیشن احتجاج کرے۔ معتبر ذرائع نے نوائے وقت کو بتایا کہ اپوزیشن کے ہارڈلائینرز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے بے چین ہیں۔ ان ہارڈلائینرز کے نزدیک موجودہ انتخابات اور سینیٹ میںچیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اس لیے جمہوری عمل میں مداخلت کے منصوبہ پر احتجاج ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی احتجاج کو دھیما رکھنے اور عمران خان کو ہنی مون پریڈ دینے کے لیے تیار ہیں۔
پیپلز پارٹی / موقف