مقبوضہ کشمیر: مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا بھارتی منصوبہ، اقوا م متحدہ نوٹس لے: حریت کانفرنس

Aug 03, 2018

سری نگر(کے پی آئی)حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے مذموم منصوبوں پر روک لگانے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرے ۔ حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی قابض افواج کی طرف سے نہتے عوام کی طرف سے چلائی جارہی حق خودارادیت کی تحریک کو بزور طاقت دبانے کے نتیجے میں اجتماعی نسل کُشی کی ظالمانہ کارروائیوں کا سنگین نوٹس لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ کا ایک ہنگامی اجلاس حریت سیکرٹری جنرل غلام نبی سمجھی کی زیرصدارت ہوا جس میں ریاست جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھارتی منصوبوں پر روک لگانے کے حوالے سے تازہ ترین صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس وقت ریاست اپنی تاریخ کے نازک ترین دور ا ہے پر کھڑی ہے، جہاں ہمیں کرو یا مرو کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اجلاس میں بھارت کے اسرائیلی منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے اپنی غیور قوم سے دردمندانہ اپیل کرتے کہا کہ وہ اپنی سیاسی، جغرافیائی، معاشی اور تہذیبی بقاء کے لیے ایک فیصلہ کُن عوامی تحریک برپا کرنے کے لیے ہر سطح پر تیار رہیں۔ یونینوں، وکلائ، طلبائ، دانشوروں، ٹرانسپورٹ انجمنوں اور ملازم یونیٹوں کی طرف سے بھارت کی تہذیبی یلغار کے خلاف اپنا تعاون پیش کرنے کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نازک مرحلے پر ہر طبقہ فکر کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ملّی ذمہ داری کو پوری طرح سے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ حریت کانفرنس نے بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی ریشہ دوانیوں سے خبردار رہنے کی مودبانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو آج تک ان ہی سیاسی گماشتوں کے ہاتھوں بے پناہ نقصان پہنچ چکا ہے ۔ حریت کانفرنس نے آئین ہند میں درج دفعہ 35Aاور دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے علاوہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندوں کو بیرون ریاست جیل خانوں میں منتقل کئے جانے کے آمرانہ اقدامات کے نتیجے میں بھارت کے سرمایہ داروں کی طرف سے یہاں کی زمینوں کی خریدوفروخت، بھارت کی دیگر ریاستوں سے پٹواری یا تحصیلدار سے لے کر بڑے بڑے آفیسروں کو یہاں تعینات کرنے اور معمولی نوعیت کے فرضی جرائم کی پاداش میں کشمیری قیدیوں کو دہلی کے تہاڑ جیل میں منتقل کرنے کی سامراجی منصوبوں کے خلاف ہر طرح قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں۔ حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے مذموم منصوبوں پر روک لگانے کے لیے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرلینا چاہیے۔ حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی قابض افواج کی طرف سے نہتے عوام کی طرف سے چلائی جارہی حق خودارادیت کی تحریک کو بزور طاقت دبانے کے نتیجے میں اجتماعی نسل کُشی کی ظالمانہ کارروائیوں کا سنگین نوٹس لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد دے۔دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس اور جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر نے سیفٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اپنا رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ بین الاقوامی سطح پر کالعدم قرار دیئے جانے والے پی ایس اے کی تازہ ترمیم کو انسانی حقوق پامالیوں کے ایک نئے باب سے تعبیر کیا ہے۔اپنے بیان میں حریت کانفرنس نے ریاستی انتظامیہ کونسل کی جانب سے پبلک سیفٹی ایکٹPSA کے تحت جیلوں میں مقید نظر بندوںکو بیرون ریاست کی جیلوںمیں منتقل کرنے کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے کشمیر کے جیلوں میں مقید نظر بندوںکو اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور جیلوں میں مقید کر دینے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔بیان میں حکومت کی طرف سے کشمیر میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی کو صحافتی آزادی پر قدغن اور جموںوکشمیر کے عوام کیخلاف ہو رہی زیادتیوں، ظلم ، تشدد اور مظالم کو باہر کی دنیا سے پوشیدہ رکھنے کی ایک ناکام کوشش قرار دیا۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے بھی سیفٹی ایکٹ قانون میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنانے اور کشمیری قیدیوں کو بیرون ریاست جیلوں کو منتقل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دریں اثناء مقبوضہ کشمیر میں بھارتی گورنر این این وہرا نے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ میں موجود اس شق کو منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت کشمیری نظر بندوں کو مقبوضہ علاقے سے باہر بھارتی جیلوں میں منتقل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق گورنر این این وہرا نے بھارتیہ جنتاپارٹی کی ہندوانتہا پسند حکومت کی ہدایت پرکالے قانون پبلک سیفٹی سے شق 10 خارج کر لی۔یاد رہے کہ پبلک سیفٹی کا وجود 1978میں عمل میں لایا گیا تھا اور یہ قانون عام طور پر جنگلات کی لکڑی سمگل کرنے والوں پر لاگو کیاجاتا تھا لیکن اب بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے اور آزاد ی کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر اس قانون کا بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو کم از کم دو برس تک بغیر کسی عدالتی ٹرائل کے جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔شق دس کی منسوخی سے پی ایس اے کے تحت گرفتار کشمیریوں کو اب اپنے گھروں سے بہت دور بھارتی ریاستوںکی جیلوں میں رکھنے کی راہ ہموار کی گئی ہے ۔

مزیدخبریں