تجزیہ:محمد اکرم چودھری
میاں شہباز شریف کے بیانات اور میاں نواز شریف کا ٹویٹ ثابت کرتے ہیں کہ دونوں بھائی مختلف سیاسی سوچ کے حامل ہیں۔ دونوں مختلف سمتوں میں سیاست کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو بھلا کر مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن میاں نواز شریف ماضی میں الجھے رہنے کے رویے پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کو دونوں بھائیوں کی مختلف سیاسی سوچ کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ میاں نواز شریف ریاستی اداروں کے خلاف بیانیے پر قائم ہیں۔ جب کہ شہباز شریف مفاہمت و مصلحت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہے پیں۔ میاں شہباز شریف نے آزاد کشمیر انتخابات سے پہلے بڑے بھائی سے فون پر کہا تھا کہ "مجھے بچوں کے سامنے نہ جھکائیں حکم کریں گھر بیٹھ جاتا ہوں"۔ میاں شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے سے ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور ان کے قریبی رفقاء نے روکا تھا۔ اب میاں شہباز شریف کا اچانک منظر عام پر آنا اور پھر میاں نواز شریف کا ٹویٹ ثابت کرتا ہے کہ "بھائی" لندن سے بیٹھ کر معاملات سنبھال رہے ہیں۔ اب فیصلہ میاں شہباز شریف نے ہی کرنا ہے کہ سیاست کرنی ہے یا گھر بیٹھنا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ میں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کے کرنے کی سوچ رکھنے والے بھی اکثریت میں موجود ہیں لیکن کسی اچھی قیادت سے محرومی انہیں کھل کر سامنے آنے سے روک رہی ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق انجینئر امیر مقام نے میاں شہباز شریف سے کہا تھا کہ میاں صاحب فیصلہ کریں کہ کس بیانیے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ مفاہمتی حکمت عملی اختیار کرنی ہے یا پھر مزاحمتی منصوبے کے ذریعے آگے بڑھنا ہے۔ میاں صاحب ہم پیسے خرچ کر کر کے تھک گئے ہیں۔ اگر مزاحمت کرنی ہے تو کیا یہ مزاحمت اپنی ہی فوج کے خلاف کریں گے۔ کیا یہ طرز سیاست ملکی مفاد میں ہے۔ میاں صاحب باہر نکلیں اور قیادت کریں۔ واضح موقف اختیار کریں۔ میاں شہباز شریف مستعفی ہونے کی خبروں کی تردید کر رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے سیاسی میدان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے لیے سنجیدہ مشاورت ضرور کی تھی۔ دونوں بھائیوں کے مختلف موقف جماعت میں واضح تقسیم کو ثابت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں میاں شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ میاں نواز شریف جماعت کو اپنی بیٹی کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف بڑے بھائی کی عدم موجودگی میں اپنی سیاسی سوچ کے ذریعے فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔