سوچتا ہوں کہ موت آنے تک

دنیا کتنی خوبصورت امتحان گاہ ہے راہ حق و باطل کا تعین کر دیا گیا ہے۔ حلال و حرام کی مکمل وضاحت کر دی گئی ہے۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ "ایک ایسا دوست ہونا چاہیے جو قبر میں خاتم النبین حضور پاک ﷺ کی پہچان کروا دے اور وہ دوست درود وسلام ہے"انسان کو اپنے آپ سے اتنی محبت تو ہونی چاہیے کہ وہ خود کو جہنم سے بچا کر جنت کی طرف لے جائے۔ دین اسلام ستر فیصد انسانی حقوق سے وابستہ ہے اور اگر جناب عمر فاروق ؓ کا خطبہ سنیں تو پتہ چلتا ہے کہ جیسے ستانوے فیصد دین ہے 
ہی انسانی حقوق۔بحیثیت مسلمان ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ڈیڑھ ہزار سال پر محیط متفقہ عقائد کو ایک ہی ضر ب میں پاش پاش کر دیا گیا ہے۔ متفقہ عقیدہ حق تھا کہ آب زم زم میں شفا ہے۔ مسجدیں ایمان کا مرکز ہیں۔ حرم مبارک جائے پناہ ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمیں حرمین شریفین سے جیسے دور کر دیا گیا ہے۔ آج دنیا میں W.H.Oہمارے S.O.Psبنا رہا ہے ۔ اور مجھے ہمیشہ یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا میڈیا بھی کسی اور کے کنٹرول میں ہے۔ بل گیٹس کو مسیحا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جس کیخلاف اب دنیا سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے اور تنزانیہ اور افریقہ سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ چائنہ امریکہ کو اور امریکہ چائنہ کوCovidکا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ۔ پاکستان دنیا کی پہلی مضبوط ایٹمی طاقت ہے اور بہت سے اسلامی ممالک کو اس سے تقویت ملتی ہے اور آقا کریم ﷺ کا فرمان جب آپ نے ہند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ مجھے یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ جناب علامہ اقبال نے پیشگی کچھ خدشات سے متنبہ کر دیا تھاکہ :
وہ فاقہ کش جو موت سے نہیں ڈرتا
ذرا روح محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
پاکستانی قوم مضبوط اور عشق رسول ﷺ سے سرشار قوم ہے۔ مگر ان کے دل اس وقت ٹوٹتے ہیں جب اس انتہائی نازک اور مشکل وقت میں ہمارے کچھ سابق حکمران پاکستان کے بد ترین دشمن اور بدخواہ ہندوستان کے ٹائوٹ حمداللہ محب سے لندن میں ملاقات کرتے ہیں اور پاکستان کے سینے میں ہندوستان سے دوستی کا ایک اور خنجر گھونپتے ہیں ۔ کشمیر کے ساتھ سیالکوٹ کا الیکشن جیت کر حکمران جماعت اتنی خوش نہ ہو کیونکہ اس جیت کے پیچھے لندن میں بیٹھے لیڈر کی حمداللہ محب سے ملاقات اور انکی جماعت کا بیانیہ ہے۔ا ب ہمارے سیاستدان اپنے کردار کے ساتھ اپنے آپ کو منوائیں۔ سب سے پہلے اپنی دولت پاکستان لائیں اور ہم کبھی نہیں چاہتے کہ انگریزی بولنے اور لکھنے والے بچے ہی صرف پاکستان کی ضرورت بنیں ۔ لوگ بخوبی اس سے آگاہ ہیں کہ حکمرانوں کے جو بچے باہر رہتے ہیں مختلف ملکوں کی ایجنسیاں کسی نہ کسی طرح ان سے رابطے میں رہتی ہیںاور انھیں محبت کی چادر ڈال کر بعد ازاں بے بس کر دیتی ہیں ۔ ہر حکومت میں شامل بہت سے لوگ بھی پلانٹ کیے جاتے ہیں ۔ اب آنکھیں کھولیں ۔ بحیثیت سیاسی کارکن میں سمجھتا ہوں کہ کاروبارِ حکومت چلانے کیلئے چھوٹی موٹی سیٹوں پر کچھ ماسی ، چاچوں کو لگانے میں کوئی حرج نہیںمگر جہاں ملکی سلامتی کے معاملات ہوں وہاں پر ہر صورت درست فیصلے کرنے چاہئیں ۔ 
ہمارے سیاستدانوں نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں اور ہمیشہ طنزو مزاح برداشت کرتے رہتے ہیں۔ اب سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ ہم سب نے بیرونی نیشنلٹیاں چھوڑ دی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے باقی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی نیشنلٹیاں بھی چیک ہونی چاہئیں ۔ یہ ایک آئینی اور قانونی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اسلامی مملکت پاکستان پر کوئی غیرملکی کیسے حکمرانی کر سکتا ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم کیلئے وزیر اعظم بہترین کام کر رہے ہیں جو قابل ستائش ہے۔ زیادہ انگریزی بول کر قوم کو بے وقوف بنانے والوں سے جان چھڑانا ضروری ہے ۔ سپریم کورٹ آف 
پاکستان کے فیصلے کے مطابق دفتری کام قومی زبان میں ہونا چاہیے۔ پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کے حالات بھی چیک کریں آپ کو معلوم ہوگا کہ نشہ کہاں تک ہماری نسل میں سرائیت کر چکا ہے ۔ اور Co-educationکس طرح ہمارے اسلامی تشخص کو پامال کر رہی ہے۔ حالات عجیب ہیں کہیں سے ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی ۔ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہیں مگر کبھی کبھی قوم کی امیدیں دم توڑتی نظر آتی ہیں ۔ میں دولت کے پجاریوں کو جنہوں نے دولت کے لیے اور چار دن کی زندگی کی چمک کیلئے اپنی عزتیں اور وقار دائو پر لگائے ہوئے ہیں انھیں بڑا با ادب کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں آپ نے جانا ہے وہاںBaggage are not allowedبس اکیلے ہی جانا ہے۔
انتہائی دکھی دل کے ساتھ فی الحال یہی کہوں گا کہ :
سوچتا ہوں کہ موت آنے تک
زندہ رہنے میں کیا قباحت ہے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...