کراچی(نیوز رپورٹر) ضیاء الدین یونیورسٹی کی جانب سے ’ ’ پاکستان کیلئے جناح کا وڑن اور آزادی کے پچھتر برس ‘ ‘ کے موضوع پر چودھویں زیڈ یو ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد آج پاکستان کی ریاست جناح کے تصور سے کتنا مختلف ہے پر مباحثہ کرنا اور اس پر تجزیہ حاصل کرنا تھا۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق چیئرمین سینیٹ آف پاکستان سینیٹر میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فلاحی ریاست، فیڈریشن اور جمہوری نظام کی بات کی تھی۔ مگر افسوس پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع آئے جب آئین کو معطل کیا گیا، یہاں فوجی آمریت رہی ہے، اور صدارتی نظام حکومت نافذ کیا گیا۔ تاریخی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد کا کہنا تھا کہ جناح کے تاریخی تناظر اور سماجی معاملات کو سمجھے بغیر ان کے وڑن کو جاننا ممکن نہیں ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے عظیم مسلم رہنما تھے۔ ہندوستانی قانون ساز اسمبلی میں خدمات انجام دیتے ہوئے جناح نے برطانوی حکمرانوں سے بار بار زور دیا کہ وہ ہماری پارلیمنٹ کو اپنے پارلیمانی نظام کی طرح خود مختاری دیں۔ گیارہ اگست کی ایک مختصر تقریر میں انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ کو پاکستان کی سپریم پارلیمنٹ کہا، اور اس جملے کو انہوں تین بار استعمال کیا۔سینئر صحافی، مصنف اور سماجی کارکن غازی صلاح الدین نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے قائد اعظم کی تقریر ’ ’ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اس ریاست پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں ‘ ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیا قائد اعظم کا واقع یہ کہنا تھا کہ آ پ کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں ریاست کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔