پاکستان دنیا بھر کے نیچر لورز کو مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ دنیا نے آرٹیفیشل ٹورازم سپاٹ بنائے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے پاس قدرت کا حسن بکھرا پڑا ہے۔ ورسٹائل ثقافتی کشش سے مالا مال پاکستان سیاحت کے حوالے سے سونے کی چڑیا ہے۔ ساحلِ سمندر ہو یا بلوچستان کے صحرا، درہ¿ خیبر ہو یا زندہ دلان لاہور کی تاریخی عمارات۔ سب آنکھوں کو خیرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اگر بات کی جائے قدرتی حسن کی تو بالخصوص گلگت بلتستان کو مصور کائنات نے بے پناہ دلکشی سے نوازا ہے۔ بین الاقوامی سیاح اپنے اپنے خطوں میں جا کر گلگت بلتستان کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ اگلی بار اپنے ساتھ مزید سیاح لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
لاہور کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ "جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں" میرا کہنا ہے کہ اگر سیاحت کے شوقین افراد نے گلگت بلتستان کی سیر نہیں کی تو کچھ بھی نہیں دیکھا۔ گلگت بلتستان میں ایک ہی وقت میں شدید گرمی اور درجہ حرارت 45 جبکہ عین اسی لمحے منفی 40 کا عمل اس قطعہ کو دنیا بھر سے ممتاز کرتا ہے۔ سیاح مبہوت رہ جاتے ہیں جب شاہراہ قراقرم پر دوران سفر رائے کوٹ پل پر جان لیوا گرمی ہوتی ہے تو دوسری جانب یہی سیاح اوپر نانگا پربت بیس کیمپ پر لہو منجمد کرنے والی سردی سے بچاو¿ کے لیے آگ کے الاو¿ کے گرد اکٹھے ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سکردو میں دیوسائی کا خوبصورت ٹھنڈا صحرا قدرت کا ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں وہ پھول اپنی رعنائی دکھاتے ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتے۔ گلگت بلتستان میں دنیا کی آٹھ بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ جنہیں سر کرنے کے لیے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی کوہ پیما اور سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان اگر سیاحتی مقامات کی نوک پلک سنوارے تو وطن عزیز کی سب سے بڑی منافع بخش انڈسٹری سیاحت ہی ہوگی۔ جس کے اکانومی پر اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اب ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک بین الاقوامی سیاحتی مرکز بننے کے لیے تیار بھی ہے ؟۔ کیا حکومت اور انتظامیہ کو سیاحت کے شعبے سے متعلقہ مسائل کا ادراک بھی ہے؟۔ قارئین سیدھی سی بات ہے سیاح خود کو محفوظ سمجھیں گے تو پاکستان آئیں گے۔ چشم کشا حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں جرائم کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چوری، قتل، ریپ، ڈکیتی، دھمکی، بدمعاشی، خودکشی کے کیسز روز کے حساب سے درج ہو رہے ہیں جو کہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ نیز یہاں مقامی اور غیر مقامی افراد کا بھی مسئلہ چل رہا ہے۔ جس سے گلگت بلتستان کا سماجی ڈھانچہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بلتستان جیسے پرامن علاقے میں قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ملک دشمن عناصر خاص پروپیگنڈے کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دے ر ہے تاکہ یہاں سیاحت بطور انڈسٹری پنپ نہ سکے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنانے کے اقدامات ہوتے ہیں لیکن عمل درآمد صفر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں ایماندار اور جفاکش پولیس افسران کی حکمت عملی اور محنت شاقہ کو سیاست کی نذر کرنے میں بڑی سرعت سے کام لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈار علی خٹک جیسے قابل افسر کی گلگت بلتستان میں تعیناتی کی گئی بعدازاں ان کو کہیں اور اسائمنٹ دے دی گئی۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ایک افسر جب نظام ٹھیک کرنے آتا ہے تو نہ صرف اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں بلکہ تبادلے کا نوٹیفکیشن بھی ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنے کی بروقت سعی نہ کی گئی تو گلگت بلتستان متعدد اخلاقی، سماجی، ثقافتی، مذہبی مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی نے ہماری سیاحت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن اب گلگت بلتستان میں امن و امان پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
٭....٭....٭