اردو سے محبت اور پنجاب پولیس کا امتحان

Aug 03, 2023

عاطف خالد بٹ

مولانا نوراللہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ صوبائی بجٹ پیش ہونے کے بعد جب اسمبلی کے اجلاس میں اس پر بحث جاری تھی اس وقت مولانا نوراللہ نے اس موضوع پر کچھ بات کرنا چاہی لیکن بات شروع ہوتے ہی انھیں ٹوک دیا گیا کیونکہ وہ پشتو میں بات کرنا چاہ رہے تھے۔ اس کے جواب میں مولانا نوراللہ نے کہا، ’انگلش پر پابندی لگادیں تو میں بھی اردو بولوں گا۔ اگر انگلش کی اجازت ہے، جس کو ہم نہیں سمجھ پارہے تو پھر پشتو کا بھی برا نہ مانیں۔‘ اس پر جب دوسری طرف سے کہا گیا کہ ہم برا نہیں مان رہے، بس یہ کہہ رہے کہ ہمیں پشتو سمجھ نہیں آتی تو اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے اپنی بات کے تسلسل میں ہی کہا، ’تو ہم بھی انگریزی نہیں سمجھ رہے۔ تو یہاں یہ ہمارے تمام لٹریچر، بجٹ سے لے کے، بجٹ کس زبان میں چھاپا گیا ہے؟ قومی زبان کا ہم احترام کرتے ہیں۔ اگر آپ حضرات احترام کرتے ہوں قومی زبان کا تو ہمارا بجٹ اردو میں چھاپنا چاہیے تھا۔ ہماری دفتری زبان اردو ہونا چاہیے تھا۔ ہماری عدالت کی زبان اردو ہونا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اس ظلم کی اجازت ہے کہ نہ سمجھتے ہوئے، نہ جانتے ہوئے، پھر بھی انگریزی لکھنا پڑے گا، سننا پڑے گا، بولنا پڑے گا تو پھر پشتو بھی ہم بولیں گے آپ لوگوں کو سننا پڑے گا۔۔۔‘
یہ تو تھی بلوچستان کے ایک پسماندہ ضلع سے قومی زبان یعنی اردو کے حق میں اٹھنے والی ایک آواز، اب آئیے اردو سے محبت کے ایک اور زاویے کی طرف جس سے ایک افسوس ناک واقعہ بھی جڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صباح علی عبدالمعز حجازی مصر کی جامعہ الازہر میں اردو زبان و ادب کی استاد ہیں۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں واقع یہ وہی جامعہ الازہر ہے جسے دنیا کی قدیم ترین جامعات میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اور مسلم دنیا میں اس جامعہ کو بہت زیادہ اہمیت کی حامل سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صباح گزشتہ تقریباً ایک برس سے اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے سلسلے میں پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں مقیم ہیں۔ وہ جامعہ پنجاب کے ادارہ برائے زبان و ادبیاتِ اردو کے ایک استاد کی نگرانی میں اپنی تحقیقی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور آئندہ دو ہفتے میں وہ اپنا کام مکمل کر کے اپنے وطن واپس جارہی ہیں۔
اب سے تقریباً دس روز پہلے، 24 جولائی کو، ڈاکٹر صباح پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں واقع اپنے ہاسٹل سے کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں اردو بازار جانے کے لیے نکلیں تو قرطبہ چوک سے سپیڈو بس میں سوار ہو کر وہ بھاٹی چوک پہنچیں۔ بھاٹی چوک میں بس سے اترنے کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ بس میں کسی نے ان کا پرس نکال لیا ہے جس میں ان کا پاسپورٹ، مصری شناختی کارڈ، پنجاب یونیورسٹی کی تمام دستاویزات، بینک کارڈ اور دس ہزار روپے سے زیادہ نقدی تھی۔ بینک کارڈ اور پاس موجود نقد رقم کے چوری ہونے کے بعد ڈاکٹر صباح کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ بچا کہ وہ کہیں آنے جانے کے لیے اپنی سونے کی انگوٹھی بیچ دیتیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک اجنبی ملک میں کسی اکیلی خاتون کے ساتھ اگر ایسی صورتحال پیش آ جائے تو اس کی حالت کیا ہوگی۔ خیر، وہ کسی طرح پوچھ پاچھ کر بھاٹی گیٹ تھانے پہنچیں اور وہاں اس واقعے کی رپٹ درج کرائی۔ پولیس نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 379 کے تحت چوری کا مقدمہ (نمبر 1725/23) تو درج کرلیا لیکن گزشتہ دس روز سے اس سلسلے میں مزید کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر صباح پاکستان میں ہماری مہمان ہیں اور ہماری قومی زبان کی محبت انھیں ہزاروں میل دور سے یہاں لائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پولیس اس مقدمے کو غیر معمولی اہمیت دے کر ہر ممکن سعی کرتی کہ جلد از جلد اس چور کو تلاش کیا جائے جس نے ایک غیر ملکی مہمان کی نظر میں ملک کے وقار کو مجروح کرنے کی گھناو¿نی کوشش کی لیکن شاید پولیس افسران اس بات سے واقف ہی نہیں ہیں کہ یہ واقعہ کتنی اہمیت کا حامل ہے، اسی لیے انھوں نے روایتی طور پر مقدمے کا اندراج ہی کافی سمجھ لیا اور اس کے بعد ہماری معزز مہمان سے رابطہ کر کے انھیں یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس سلسلے میں کیا کوششیں کی جارہی ہیں۔ ممکن ہے تھانہ بھاٹی گیٹ کے پولیس افسران اور اہلکاروں کو اس بات کا اندازہ ہی نہ ہو کہ یہ معاملہ صرف چند دستاویزات اور کچھ نقد رقم کی چوری کا نہیں بلکہ ایک برادر اسلامی ملک سے آئی ہوئی ایک معزز مہمان کی نظر میں ملک اور اس کے نظام کی ساکھ کا بھی ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ ڈاکٹر عثمان انور کا ان دنوں بہت چرچا ہے اور بہت سے پولیس ملازمین اور افسران کے منہ سے ان کے بارے میں غیر معمولی تعریف و توصیف سننے کو ملی ہے۔ یقینا ان میں ایسی کچھ خوبیاں ہوں گی جن کی بنیاد پر لوگ ان کی بہت تعریف کرتے ہیں ورنہ ہمارے ہاں عام طور پر کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں اچھی بات کہنے کا رواج بہت کم ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر صباح حجازی کے مقدمے کے سلسلے میں متعلقہ تھانے کو خصوصی ہدایات جاری کریں اور جتنی جلد ممکن ہوسکے مالِ مسروقہ کی برآمدگی کو یقینی بنانے کے لیے کردار ادا کریں تاکہ ڈاکٹر صباح جب 14 اگست کو ہمارا یومِ آزادی منانے کے بعد پاکستان سے مصر کے لیے روانہ ہوں تو وہ اپنے ساتھ پاکستان اور لاہور کے علاوہ پنجاب پولیس کے بارے میں خوشگوار تاثرات لے کر واپس جائیں۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں