پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کی سمری پر دستخط کرتے وقت وزیراعظم کے آنسو نکل پڑے
خدا جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ اس موقع پر تھوڑے سے تصّرف کے ساتھ البتہ :
سرہانے ”شہباز“ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
بھی کہا جاسکتا ہے۔ اب یہ بھی معلوم نہیں یہ آنسو خوشی کے تھے یا غم کے یا مگرمچھ کے؟ کیونکہ اس فیصلے کے بعد حقیقی آنسو صرف اور صرف عوام کے پاس بہانے کےلئے رہ گئے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی یہ خبر درست بھی ہے یا نہیں۔ یہ کوئی لطیفہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے پاکستانی عوام جو پہلے بھی بد سے بدتر حالات میں مسکرانے کے عادی ہیں۔ ایسی بات پر قہقہہ لگا کر چند لمحے اپنے درد و غم بھول جائیں گے۔ حکمرانوں کا کیا ہے انہیں پہلے کب عوام سے محبت تھی جو اب ہوگی۔ حکمران طبقے اپنی عیاشیوں کے لئے ہر وقت تیار ہوتے ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھ کر اس بارے میں قانون سازی تک کرتے ہیں مگر جن کے ووٹوں کے صدقے میں یہ لوگ ان ایوانوں کی زینت بنتے ہیں انہیں معمولی سی رعایت دینے کو یہ تیار نہیں۔ ہاں البتہ ان اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کے غم میں یہ سب ”خون کے آنسو“ بہاتے نظر آتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کے چل چلاو¿ کا وقت ہے اس کے باوجود اگر اس نے ظالمانہ فیصلہ کیا ہے جو عوام پر بم کی طرح گر کر پھٹا ہے تو اس کا نتیجہ بہت جلد الیکشن اگر ہوئے تو ان کے سامنے کو طفل تسلی دے دی۔ ان سے تو پی ٹی آئی والے عقل مند تھے انہوں نے جاتے جاتے چاہے معیشت کا بیڑہ غرق کیا مگر پٹرول کی قیمت کم کر کے عوام کو طفل تسلی دے دی۔ موجودہ حکمرانوں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا۔
٭٭٭
عثمان بزدار سمیت 22 رہنماﺅں کو پی ٹی آئی سے نکال دیا گیا
لوجناب! اب تو حد ہی ہو گئی۔ وسیم اکرم پلس کو بھی کس بے دردی سے پی ٹی آئی والوں نے سرپلس قرار دے کر پارٹی سے ہی نکال دیا۔ یہ تو بڑے دکھ کی بات ہے۔ باقی نکالے جانے والے 22 افراد کے اس گروپ میں بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے کامیابی کی چابی اپنے پاس رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں۔ مگر عثمان بزدار جسے چیئرمین پی ٹی آئی اپنی ”جند اور جان“ قرار دیتے تھے جس کےلئے انہوں نے چودھریوں سے ٹکر لی۔ بڑے بڑے پنجاب کا ”ماما“ بننے کے دعویداروں کو خاطر میں نہیں لائے،آج اس عثمان بزدار کو جس طرح گھر سے نکالا گیا وہ افسوس کی بات ہے۔ بزدار نے تو کبھی منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا وہ تو چیئرمین کے اشاروں پر چلتے پھرتے، ا±ٹھتے بیٹھتے تھے اب ان پر درجنوں کیس ہیں۔ اس پر تو کم از کم وہ بھی یہ کہہ سکتے تھے کہ ”یہ سب پارٹی کے رہنماﺅں کے کام تھے جو چیئرمین کے حکم پر وہ کر دیتے تھے۔“ حسب موقع غالب کا شعر:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
کہہ کر وہ ان فرشتوں کو بھی بے نقاب کر سکتے ہیں۔ ابھی تک خاموش رہنے والا بزدار اگر بول پڑا تو بہت جلد عوام کو سننے کےلئے نت نئے درجنوں افسانے ملیں گے۔ لگتا ہے پی ٹی آئی والوں نے عثمان بزدار کی ساری ٹیم کو ہی پارٹی بدر کر دیا ہے۔ اب یہ پھینکا گیا مال بہت سی پارٹیاں اٹھانے کے لئے تگ و دو کر یں گی تاکہ قابل استعمال سامان سٹور کر لیں۔ اگر پی ٹی آئی میں عثمان بزدار جیسے خاموش فرمانبردار لیڈر کی جگہ نہیں رہی تو باقی کون وہاں رہ سکتا ہے؟ کس کے ہاتھ صاف ہیں۔ افسوس ہے ان پر جنہوں نے ٹشوپیپر کی طرح ان کو استعمال کر کے پھینک دیا کہ اب خود بھگتو الزامات....!!!
٭٭٭
ناروے کپ فٹ بال میں پاکستانی سٹریٹ چلڈرن ٹیم کی مسلسل تیسری فتح
ہمارے گلیوں کے کھلاڑیوں نے پہلے بھی جہاں مقابلوں میں شرکت کی کامیابیاں سمیٹیں۔ کراچی کی گلیاں ہمارے نوجوانوں اور بچوں کے لئے بلاشبہ فٹبال کی اکیڈمیاں ہیں۔ جہاں رات ڈھلے یہ چھوٹے چھوٹے فٹ بال کے شوقین لڑکے اپنی مدد آپ کے تحت فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ جہاں گراﺅنڈ دستیاب ہیں وہاں جھاڑ جھنکار سے بھرے۔ گھاس سے عاری مٹی کے میدانوں میں کنکریوں پر بھی ہمارے یہ نوجوان گرتے چوٹیں کھاتے فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ لیاری تو سچ کہیں فٹبال کھیلنے والوں کا مرکز ہے۔ اس طرح بلوچستان کے ریتلے میدانوں میں اور سڑکوں پر بھی گوادر سے لے کر چمن تک ہر عمر کے نوجوان فٹبال کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت ہمارے گلی کوچوں کے یہ انمول ہیرے ناروے میں سٹریٹ چلڈرن ناروے کپ فٹ بال کے مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں اور کامیابیوں کا سفر طے کر رہے ہیں۔ اپنے گروپ میں ہماری یہ ٹیم مسلسل تینوں میچ جیت کر پہلی پوزیشن پر براجمان ہے۔ جس سے ان کھلاڑیوں کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ دعا ہے یہ بچے آگے بھی اپنے میچ جیت کر وکٹری سٹینڈ پر اپنے ملک کا پرچم لہراتے نظر آئیں۔ ہماری حکومتوں اور محکمہ سپورٹس کو یہ انمول ہیرے نظر نہیں آتے انہیں چند گنے چنے کھیلوں کی فکر کھائے جاتی ہے۔ اگر ان بچوں کو بھرپور تربیت اور سرپرستی حاصل ہو جائے تو ممکن ہے کہ ہم بھی فٹبال کے عالمی مقابلوں کی طرف اپنا سفر طے کریں۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب ہم فٹ بال کو جو دنیا کاسب سے بڑا کھیل ہے مقبول بھی ہے اپنا ہدف بنا کر اس کے کھلاڑیوں پر توجہ دیں....
٭٭٭
لبنان کے مہاجر کیمپ میں مقیم دو متحارب گروپوں میں جھڑپ 11 فلسطینی ہلاک
معلوم نہیں صبر و اتحاد ہم سے کیوں روٹھ گیا ہے۔ کیا اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کا قتل عام کم ہے، کیا فلسطین اتھارٹی والے خودمختار علاقوں پر اسرائیلی حملے اور بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں سے ہمارے کلیجے میں ٹھنڈ نہیں پڑتی کہ ہم آپس میں بھی برسرپیکار ہیں۔ ایک دوسرے کے گلے بھی کاٹ رہے ہیں اس پر تو اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہونگے کہ جو کام انہوں نے کرنا تھا وہ ہم خود کر رہے ہیں۔ اس وقت لبنان میں واقع فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں میں دو فلسطینی مہاجرین کی تنظیموں میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں جو ہتھیار اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے تھے وہ ایک دوسرے پر چلائے جا رہے ہیں۔ 11 فلسطینی جاں بحق ہو چکے۔ یہ ایک افسوس کی بات ہے۔ چاند ماری کا اتنا ہی شوق تھا تو اسرائیل پر کرتے اپنی طاقت، اپنا گولہ بارود کم کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ مسلم ا±مہ کا نام تو ہے مگر عملاً اس کا وجود کہیں بھی نظر نہیں آتا جو قوم دشمن سے برسرپیکار ہو اس کو یہ لچھن زیب نہیں دیتے۔ ان کو سمجھنا تو امہ کا ہی کام ہے۔ باقی تو چلیں عجمی ہیں، عرب تو ان کے ہم زبان ہیں۔ وہی اپنی زبان میں ان کو باہمی جدال و قتال سے بچائیں انہیں بھائی چارے، صبر و تحمل کا درس دے ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرائیں۔ اس وقت فلسطین کو اپنے جوانوں کی ان کے حوصلوں کی ان کی جرا¿ت کی بہت ضرورت ہے تاکہ وہ سب مل کر اپنے حقیقی دشمن اسرائیل کے خلاف صف آرا ہوں نا کہ آپس میں لڑتے رہیں۔
٭٭٭٭