وزیر اعظم شہباز شریف کی بھارت کو پھر مذاکرات کی پیش کش 

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں منرل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ جوہری تصادم ہوا تو یہ بتانے کے لئے کوئی نہیں بچے گا کہ ہم کون تھے۔ ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہو گا، وزیر اعظم کے بقول بھارت سے مذاکرات اس شرط پر ہوں گے کہ وہ بھی سنجیدہ معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرنے کے لئے تیار ہو۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں، ہمیں وسائل عوام پر خرچ کرنے ہیں۔ ہم تنازعات کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پاکستان اپنے ہمسائے سے بھی بات کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر آمادہ ہو۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی باہمی اعتماد اور احترام کی بنیاد پر بہترین تعلقات چاہتا ہے۔ ہم امریکہ سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے جس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے، ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ باتیں بہت ہو گئیں، اب اپنے عمل سے ترقی کے اہداف حاصل کرنے ہیں، منرل سمٹ میں شرکت کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پشاور اور باجوڑ کا دورہ کیا اور باجوڑ حملے کے زخمیوں کی عیادت کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے افغان سرزمین کے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ افغان عبوری حکومت کو اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خودکش دھماکوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے ، سرحد پار سے معصوم شہریوں پر بزدلانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور پاکستان دشمن عناصر کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خار خودکش دھماکہ کے متاثرین کے خاندانوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ بزدلانہ حملے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے۔ 
بے شک جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی ریاستوں اور مملکتوں کو باہمی جنگ و جدل سے گریز اور دوطرفہ تنازعات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا ہی تقاضہ کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں یو این چارٹر میں پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کو اجاگر کیا گیا ہے جس کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور دوسری متعلقہ کمیٹیاں بھی کردار ادا کرتی ہیں تاہم یہ فلسفہ اسی صورت کارگر ہو سکتا ہے جب متعلقہ فریقین اپنے باہمی تنازعات خلوص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے پر آمادہ ہوں جبکہ اس معاملہ میں بھارت کا ٹریک ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نہ صرف مسائل سلجھانے پر آمادہ نہیں ہوتا بلکہ اپنی ہٹ دھرمی، جنگی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے باعث مسائل الجھاتا بھی ہے اور نئے مسائل پیدا بھی کرتا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ گزشتہ 76 برس سے حل طلب ہے جس پر بھارت نے قیام پاکستان کے فوری بعد اس کی سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے فوجی تسلط جمایا اور آج تک اس مسئلہ کے حل کی راہ پر نہیں آیا۔ اس کے برعکس اس نے تنازعہ¿ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی درخواست پر یو این سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی بھی توقیر نہ کی جس کے ذریعے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو اقوام متحدہ کے نمائندے کی نگرانی میں اپنے زیر تسلط کشمیر میں استصواب کے اہتمام کا کہا گیا تھا۔ بھارت نے اس کے بجائے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی قائم کر لی اور اپنے آئین میں دو ترامیم کر کے مقبوضہ وادی کو بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا لیا اور پھر بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام کا عرصہ¿ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ 
بھارت نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یو این قراردادوں کی روشنی میں یہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور 71ءکی جنگ میں اسے سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا اور پھر ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر کے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گیا، چنانچہ پاکستان بھی بھارتی جارحانہ عزائم کے توڑ اور دفاع وطن کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر مجبور ہوا۔ اس کے نتیجہ میں بھارت کو پاکستان پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تو جرا¿ت نہیں ہوئی البتہ اس نے آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں بروئے کار لانا شروع کر دیں اور پھر افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومتوں کی معاونت سے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کو تربیت اور کمک فراہم کرکے انہیں پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اسی بھارتی سازش کے باعث ہماری ارض وطن آج بھی دہشت گردی اور خودکش حملوں کی سفاک کارروائیوں کی زد میں ہے جس میں افغانستان کی عبوری حکومت بھی اپنے مقاصد و مفادات کے تحت حصہ ڈال رہی ہے۔ 
اسی ناطے سے آج ہمارا خطہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن کر علاقائی اور عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے جس میں بھارت ہی کا بنیادی کردار ہے۔ اس نے مسئلہ کشمیر کے حل پر مبنی یو این قرادادوں کو غیر موثر بنانے کے لئے پاکستان کے ساتھ اس کے ابتلا کے دور میں شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات باہم مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر بھارت نے آج تک نہ صرف دوطرفہ مذاکرات کی نوبت نہیں آنے دی بلکہ رعونت کے ساتھ پاکستان سمیت عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی مذاکرات میں معاون بننے کی ہر پیش کش ٹھکراتا رہا ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ان حملوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے نہ صرف مذاکرات کا دروازہ بند کیا بلکہ پاکستان کو یہ رعونت بھرا پیغام بھی دیا کہ وہ اب کشمیر کو بھول جائے۔ اس تناظر میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہر سطح کے مذاکرات کی میز الٹائی اور اپنا جنگی جنون انتہاءکو پہنچا دیا جس کا عملی مظاہرہ چار سال قبل 26 فروری 2019ءکو پاکستان پر فضائی حملے کی منصوبہ بندی کے ذریعے کیا گیا مگر اس میں بھارت کو ہزیمت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر بھارت کی مودی سرکار نے اسی سال پانچ اگست کو بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شقیں نکلوا کر اپنے زیر تسلط کشمیر پر شب خون مارا اور اسے جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں الگ الگ حیثیت میں بھارتی سٹیٹ یونین کا جبری حصہ بنا لیا۔
اس بھارتی جنونیت سے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بھی بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے نظر آئے تو انہوں نے بھارت پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال کرنے کے لئے دبا¶ ڈالا۔ سلامتی کونسل، یورپی یونین، امریکی کانگرس، برطانوی پارلیمنٹ اور دوسرے نمائندہ فورمز پر اس معاملہ میں قراردادیں منظور کی گئیں اورمتعدد عالمی قیادتوں کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش بھی کی گئی مگر بھارت نے ہر پیشکش رعونت کے ساتھ ٹھکرائی اور انتقام کی نیت سے کشمیریوں کو ان کے گھروں میں محصور کر دیا۔ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کا یہ محاصرہ آج بھی جاری ہے اور بھارتی جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم میں کمی واقع ہونے کی کوئی امید نہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے پہلے بھی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی مگر بھارت کی جانب سے کسی قسم کی لچک پیدا ہوتی نظر نہیں آئی۔ اب دو روز بعد پانچ اگست کو مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجی محاصرے کے چار سال مکمل ہو رہے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھی اس کی نیت میں فتور مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھارتی لیڈر شپ سے دو طرفہ مذاکرات پر آمادگی کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ بے شک دو ایٹمی قوتوں کے مابین کشیدگی علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت لا سکتی ہے جس سے بچنے کے لئے نمائندہ عالمی اداروں کو بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کے موثر اقدامات اٹھانا ہونگے اور اسے یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پُرامن حل کی جانب لانا ہوگا۔ ہمیں بہرحال اپنی سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے تحفظ سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...