بلوچستان میں اس وقت جس قسم کی صورتحال سامنے آرہی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جلد ہی ’’باپ‘‘ کے چند رہنما جلد یا بدیرمسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ فی الحال جام کمال اور ان کے ساتھ چند ایک صوبائی وزیر بھی ’’باپ‘‘ کی کشتی سے چھلانگ لگانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ’’باپ‘‘ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی میں پہلے ہی مختلف الخیال بلوچ اور پٹھان سیاستدان جنہیں ہم الیکٹیبلز کہہ سکتے ہیں شامل ہیں جس کی وجہ سے اس نومولود جماعت نے بلوچستان میں کچھ عرصہ جام کی اور کچھ عرصہ بزنجو کی قیادت میں حکومت چلائی چند روز قبل وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی تھی جس پر وزیراعلیٰ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نہایت خوبصورتی سے معذرت کر لی ہے اور جواب میں کہا ’’آپ کی محبت کا شکریہ میں بھی دلی طور پر پیپلزپارٹی کو پسند کرتا ہوں مگر فی الحال یہ ممکن نہیں‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پی ٹی آئی والوں نے صوبے پر نظریں جمائی ان کے چار سالہ دور حکومت میں مخلوط حکومت میں ان کے وزیر بھی شامل تھے۔ ان کی بھرپور کوشش تھی کہ صوبے کو اپنے رنگ میں رنگ لیں وہاں پی ٹی آئی کو ہر ممکن طریقے سے آگے بھی لایا گیا۔ بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے مفلر تقسیم ہوئے جو کئی لوگوں نے گلے میں ڈالے۔ پٹھان اور بلوچ علاقوں کے پی ٹی آئی کے جھنڈے بھی نظر آنے لگے۔ مگر حالات نے جونہی پلٹا کھایا یہ سب کچھ رائیگاں ہوگیا۔
اس کے بعد پیپلزپارٹی والوں نے جن کے پاس چند بڑے سردار بھی موجود ہیں، نے کوشش کی کہ صوبہ ان کے ہاتھ آئے مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ جے یو آئی (ف) نے البتہ نواب اسلم رئیسانی کو نجانے کس طرح شیشے میں اتار لیا اور وہ جے یو آئی میں شامل ہوگئے۔ اب مسلم لیگ(ن) نے بھی ڈول ڈالا ہے۔ دیکھنا ہے وہ اس کنویں سے کتنے ڈول پانی نکالتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ’’باپ‘‘ اپنی موجود حیثیت کورقرار رہتے ہوئے اپنی شناخت بنائے پشتون اور بلوچ علاقوں میں اسے اپنے وزراء کی مشیروں کی بدولت جو مقام حاصل ہے اس کوبہتر بنائے تو آنے والے الیکشن میں اکثریتی نہ سہی مگرایک موثر تعداد میں ارکان اسمبلی کی بدولت وہ اپنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ البتہ اہم ہے کہ وہ سیاسی میدان میں کس قوت یعنی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بہرحال اس پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ اسے فی الحال بلوچستان میں کوئی اہم پوزیشن حاصل ہو اس کے اگر چند ارکان ہی الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو یہ بھی اس کی بڑی کامیابی ہوگی۔ ہاں البتہ بعد میں جوڑ توڑ کی سیاست سے اس کا گروپ یا اتحاد حکومت بنا لے تو ایک الگ بات ہے۔ آصف زرداری بھی جوڑ توڑ کے بادشاہ ہیں مگر جب تک پنجاب اور مرکز میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے اس وقت تک ان کی سیاست کا بھرپور اثر بلوچستان میں بھی رنگ نہیںجماسکتا۔اس وقت بلوچستان میں’’باپ‘‘ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، بی این اے، بی این پی، جے یو آئی(ف) اے ایف پی کے پاس مضبوط امیدوار موجود ہیں۔ پی ٹی آئی پانی میں نمک کی طرح تحلیل ہو چکی ، دیکھنا یہ ہے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بدامنی، کرپشن اور دہشت گردی کا شکار اس صوبے کے عوام ترقی و خوشحال اور امن کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک چکے ہیں خدا جانے ان کو یہ نعمت کب نصیب ہوگی۔ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر سیکورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے موجودہ حکومت تو اپنا بوریا بستر باندھ چکی ہے افغان طالبان حکومت متعدد مرتبہ یقین دہانیوں کروا چکی ہے ہم افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے مگر آئے روز دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر افغان حکومت ٹی ٹی پی داعش اور عسکریت پسند تنظیموں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے ۔ سانحہ باجوڑ نے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی افغانستان کی سرزمین جے یوآئی کے خلاف اسطرح استعمال نہیں ہوئی ابھی تحقیقات جاری ہیں مگر سمجھ یہ آ رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین تو ھمارے خلاف استعمال ہوئی مگر اس مرتبہ افغان ٹی ٹی پی داعش نہیں بلکہ ہمسایہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی را نے یہ پلاننگ کرکے پچاس سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا اگر داعش یہ ذمہ داری قبول کر رہی ہے تو اسکا مطلب صاف ہے کہ را اور داعش ملکر آپریٹ کرتے ہیں۔
اب نگران حکومتوں کا عمل شروع ہونے والا ہے اگلے ماہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ ندیم انجم کی ریٹائرمنٹ بھی ہے ان کے علاوہ چیف آف جنرل سٹاف لفٹیننٹ جنرل سعید بھی ریٹائر ہو جائیں گے کیا عام انتخابات کے انعقاد، سر اٹھاتی دہشت گردی امریکہ سے بگڑتے اور چائنا سے بنتے تعلقات عرب ممالک کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے پراجیکٹس کے دوران حساس اداروں کے وہ سربراہان جو اسوقت حالات سے لڑ رہے ہیں کی تبدیلی ملکی مفاد میں ہو گی یا ان اہم عہدوں پر فائز لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور لیفٹیننٹ جنرل سعید کو مدت ملازمت میں فوری توسیع دے دی جانی چاہیے؟ اب جبکہ پارلیمنٹ سے بھی اس قانون کی منظوری ہو چکی ہے اور ماضی میں بھی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی مدت ملازمت میں توسیع کی مثال موجود ہے۔ میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائرمنٹ عمر کی حد چون سال ہے اگر افسر لیفٹیننٹ جنرل ترقی حاصل کرلے تو یہی حد اٹھاون برس ہو جاتی ہے اور آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پانے والے افسر کی حد عمر ساٹھ سال ہے جس پر انکی ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل ندیم انجم جنکی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ آئیڈیل ورکنگ ریلیشن شپ بتائی جاتی ہے اور چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل سعید کو بھی قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کی روشنی میں مدت ملازمت میں توسیع دئیے جانے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے۔ ویسے اھم حلقوں میں اس بات کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ ندیم انجم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر وہ اپنی ملازمت میں توسیع نہ لینا چاھیں تو میجر جنرل فیصل نصیر کو بھی ڈی جی آئی ایس آئی کا اضافی چارج سونپا جاسکتا ہے میجر جنرل فیصل نصیر طویل عرصہ سے انٹیلی جنس میں خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ بلوچستان میں شدید دہشت گردی کے دور میں فیصل نصیر کو ٹارگٹ امن پیس فار بلوچستان کے طور پر بھیجا گیا۔ فیصل نصیر نے بلوچستان کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کر دیا کراچی میں بھی امن و امان قائم کرنے میںان کی نمایاں خدمات رہیں ۔ ویسے بھی فیصل نصیر اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے آرمی چیف سید جنرل عاصم منیر کی گڈ بکس میں ہیں وہ اس سے قبل ملٹری انٹیلی جنس میں جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ویسے دو ہزار تئیس میں مزید چار لیفٹیننٹ جنرل اپنی مدت ملازت پوری کرکے ریٹائر ہو رہے ہیں جسکے بعد انکی جگہ میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی جائے گی۔
خوشخبری یہ ہے کہ آرمی چیف نے اپنی گارنٹی پر سعودی عرب دبئی بحرین کویت یو اے ای قطر سے معیشت کی بحالی کے لیے تیس ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری پر ان ممالک کو قائل کر لیا آرمی چیف سید عاصم منیر سمجھتے ہیں کہ فوجی ملک کی سلامتی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیتا ہے سلامتی کو خطرہ صرف اسلحہ بارود سے نہیں بلکہ اورچیلنجز سے بھی ہو سکتا ہے اس لیے افواج پاکستان ملک کی ترقی کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گی۔
باپ کی کشتی ڈولنے لگی ، اہل خانہ چھلانگ لگانے کو تیار
Aug 03, 2023