پاکستان میں جمہوری حکومت کی مدت پوری ہورہی ہے، اس طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی باگ ڈورنگران سیٹ اپ کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے گی۔ چونکہ پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں پہلے سے نگراں حکومتیں موجود ہیں لیکن دیگر صوبوں بشمول وفاق میں نگراں سیٹ اپ کے لئے نام فائنل نہیں ہوئے۔ صوبہ سندھ می نگراں وزیر اعلیٰ کون ہوگا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب وفاق میں اتحادی ایم کیو ایم پاکستان کی رعنا انصار پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئی ہیں جن کے کاندھوں پر سب سے بڑی ذمہ داری نگراں سیٹ اپ کی تعیناتی ہے۔ لیکن اس سے قبل جیسا کہ ہر انتخابات میں ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اختلافات بڑھنے لگتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا ووٹ بینک ہے اور سب کا منشور بھی الگ الگ ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے نگراں سیٹ کی تعیناتی سے قبل مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے خبردار کیا ہے کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے زیادہ ہے اس سے کم کوئی نمبرقابلِ قبول نہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا مؤقف تھا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے مردم شماری کے معاملے پر سندھ کے شہری علاقوں پر شب خون مارا گیا۔اس بار بھی کراچی کی آبادی دو کروڑ ظاہر کرنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن ہم تین کروڑ سے کم کسی نمبر کو تسلیم نہیں کریں گے۔ عام انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ انتخابات فوری اور شفاف ہوں، اس کیلئے درست مردم شماری ہو پھر اس پر نئی حلقہ بندیاں اور ووٹر فہرستیں بنیں۔ ایم کیو ایم انتخابات کیلئے تیار ہے، جبکہ ایم کیو ایم کا پہلا مطالبہ شفاف مردم شماری اور دوسرا مطالبہ شفاف مردم شماری کی بنیاد پر فوری انتخابات ہیں۔سینیئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق ایم کیو ایم کراچی کی ایک کڑور 91 لاکھ کی آبادی کا نمبر مسترد کرتی ہے، امید ہے کہ وفاقی حکومت اس بار درست مردم شماری کے ذریعے کراچی کے زخموں پر مرہم رکھے گی۔ ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ڈال دی ہے، وزیر اعظم کے مطابق مردم شماری کے نتائج مکمل ہونے پر مشترکہ مفادات کونسل میں جائیں گے، 12 اگست کو حکومت کی مدت مکمل ہو رہی ہے، نئی مردم شماری کے تحت ہی انتخابات میں جانا ہے، عوامی مینڈیٹ سے لیس حکومت 5 سال حکمرانی کرے گی، انتخابات میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں۔ شہباز شریف نے زور دیا کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے وہ انتخابات کرائیں گے، مردم شماری کے نتائج مکمل ہونے پر مشترکہ مفادات کونسل میں جائیں گے۔ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے نواز شریف سے مشاورت مکمل ہوگئی، قائد حزب اختلاف سے مشاورت کروں گا، پاکستان کی معاشی صورتحال کو آگے لے کر جائیں گے، اپوزیشن لیڈر سے مشاورت آئین کا تقاضہ ہے، پر امید ہوں اپوزیشن لیڈر مل کر نگران سیٹ اپ کا فیصلہ کریں گے، الیکشن میں مسلم لیگ ن کا امیدوار نوازشریف ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف کہتے ہیں کہ حکومت سنبھالی کومہنگائی کا طوفان چل رہا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا تھا، معیشت کی بربادی کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا، لیکن اب پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ دفن ہو چکا ہے، جس کے لئے اتحادیوں، آرمی چیف اور اسحاق ڈار نے ساتھ دیا۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئرڈپٹی کنوینرسید مصطفی کمال نے واضح کیا ہے کہ مردم شماری کے معاملے پر وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔جس میں انہوں نے مردم شماری کی تاریخ میں توسیع کا عندیہ دیا ہے، وفاقی حکومت نے ہمیشہ ہماری بات سنی ہے۔ وزیراعظم نے ہماری بات سنی اور اس پر ایکشن بھی لیا گیا، وفاقی حکومت کی 32 ٹیمیں کراچی آئیں اور جائزہ لیا تو ہماری شکایات درست ثابت ہوئیں۔ چند ماہ پہلے مردم شماری کا تمام پراسس مکمل ہوچکا، کراچی میں پچھلی مردم شماری میں بھی بہت زیادتی ہوئی، آصف زرداری نے ایوان میں کہا تھا کہ کراچی کی آبادی 3 کروڑ سے کم نہیں۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی 11فیصد کے لحاظ سے بڑھ رہی ہے، ملک بھر سے لوگ کراچی آ رہے ہیں اور آبادی صرف 11 فیصد بڑھ رہی ہے، شہر میں 800 ایسے بلاکس ہیں جنہیں گنا ہی نہیں گیا۔سیدمصطفی کمال نے زور دیا کہ صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں کی وجہ سے صورتحال یہاں تک پہنچی ہے، کراچی میں 16 ہزار بلاکس ہیں، تمام کے رزلٹ جمع ہوگئے، پرویژنل نتائج کا اعلان ہونا ہے۔ایم کیو ایم انتخابات کی تاریخ بڑھانے کی بات نہیں کر رہی، الیکشن کمیشن نے رٹ لگا رکھی ہے کہ حلقہ بندیوں کے لیے 4 ماہ درکار ہیں۔ایم کیوایم رہنماؤں کے مطابق الیکشن کمیشن اپنی افرادی قوت بڑھائے اور دن رات کام کرے، ہم الیکشن رکوانے کے لیے کہیں نہیں جائیں گے، ہم نے الیکشن کی ساری تیاری کر رکھی۔ تاہم اب چند دن ہی رہ گئے ہیں جس کے بعد یہ واضح ہوجائے گا کہ نگراں وزیر اعلی کون ہوگا اور نگراں سیٹ اپ میں کون کون شامل ہوگا۔ لیکن مردم شماری کا مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر ہر سیاسی جماعت کو تحفظات ہیں۔