سید روح الامین
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیوں سے وطن عزیز پاکستان حاصل کیا ۔ قیام پاکستان کے دوران جن مصائب و مشکلات سے ہمارے اسلاف کو دو چار ہونا پڑا۔ ان کے تصور سے ہی دل ودماغ میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے۔ آخر انہوں نے اس ملک کو کیوں حاصل کیا۔ صرف اس لیے کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم کے بتائے ہوئے راستوں پر زندگی گزارنے کے پابند ہیں ہم مادر پدر آزاد نہیں ہیں۔ ہمارے لیے کچھ حدود مقرر کر دی گئی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرنا ” روشن خیالی“ نہیں بلکہ خالق کائنات کے قوانین سے متصادم ہونا ہے ہمارے دین میں آخرت نام کی بھی کوئی چیز ہے۔ زندگی میں کئے ہوئے ہر عمل کا ہم نے وہاں جواب دینا ہے۔ موت اور آخرت پر ہمارا اٹل اور پختہ یقین اور ایمان ہے ۔ لہٰذا ہماری دنیاوی اور اُخروی بھلائی خالق کائنات کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے میں ہی ہے۔ ہمارے اسلاف کے پیش نظر یہ ہی وہ سنہری قوانین تھے جن کی بنا پر انہوں نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دے کر وطن عزیز پاکستان کو حاصل کیا کہ جہان ہم آزادانہ طور پر بلا شرکت غیر ے اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں۔ انہی راہنما اصولوں کی تقلید کو اسلوبِ زیست کا نام دیا جاتا ہے۔
کسی قوم کی مجموعی زندگی میں ثقافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قوم کے منتشر افراد کو ایک مربوط اجتماعی نظام میں اکٹھا کرنا اور قوم کو ایک جہت عطا کرنا یہ ثقافت ہی کا کام ہے۔ ثقافت کا تعلق ان افکار و اقدار سے ہے جو مذہبی اور اخلاقی ضابطوں میں‘ ادب میں‘ سائنس اور فلسفہ میں اور آرٹ اور موسیقی میں ملتے ہیں۔
زبان بھی ثقافت کا ہی ایک اہم ترین جزو ہے کسی کلچر کی تشکیل اور اس کی بقا میں اس ثقافتی گروہ کی زبان بھی اہم رول ادا کرتی ہے چنانچہ ممتاز حسین لکھتے ہیں :
”کوئی قوم مضبوط اس وقت بنتی ہے جبکہ اسے بھرپور طو ر سے معلوم ہو کہ اس کا کلچر کیا ہے اور وہ اپنے اس کلچر کا اظہار اپنی ہی زبان میں کرتی ہو۔“
ہر زبان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے۔ یعنی زبان اپنے بولنے والوں کے ایک خاص کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں شروع ہی میں ایک ایسی زبان (اردو) میسر آئی جو کہ ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی بھرپور نمائندہ ہے۔ اس زبان نے تحریک پاکستان کے دوران بھی جو اہم کردار ادا کیا وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس زبان نے اپنوں اور بیگانوں کی بلا تفریق رنگ و نسل دل کھول کر خدمت کی۔ بوقت ضرورت سب نے ا س کے سائے میں پناہ لی۔ اردو زبان نے سب کو کشادہ دلی کے ساتھ اپنے سینے سے لگایا اور کبھی بھی تنگ دامن نہ نکلی۔ مختصر یہ ہے کہ اردو زبان نے سب کے ساتھ وفا کی مگر افسوس ”سب “ اس کے لیے بے وفا ثابت ہوئے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عربی قبل از اسلام بھی رائج تھی ۔ مگر اردو عہد اسلام میں پھلی پھولی۔ اس لیے اسے اسلامی ثقافت کی زبان کہنا ناروا نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ جتنا اسلامی لٹریچر اس میں سمایا ہوا ہے کسی اورزبان میں نہیں۔ اردو ہی ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی حامل ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری اسلامی روایات ثقافت اور آداب معاشرت کی نہ صرف وارث ہے بلکہ ہماری قومی زبان ہو نے کی بھی دعویدار ہے۔ قومی زبان کا لقب اس زبان کو زیب دیتا ہے جس کی وساطت سے تعلیم و تدریس کا نظام قائم ہو اور جو ایک ملک کے نظم ونسق کے اداروں اور عدالتوں کی دفتری زبان ہو۔
یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ اردو زبان میں اتنی زیادہ قوت جذب اور وسعت نظر ہے کہ حسب ضرورت اس میں ہر زبان کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو قومی زبان سے کسی بھی علاقائی زبان کی رقابت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر علاقائی زبان کا اپنے اپنے حصہ ملک میں دائرہ عمل واضح طور پر متعین ہے اور یہ سب علاقائی زبانیں ایک ہی ثقافتی نصب العین اور ایک ہی دستور حیات کی ترجمان ہیں اور ہماری قومی زبان کے لیے بڑی قوت کا سرمایہ ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ایک مخصوص اور محدود مگر موثر گروہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہے اور اس کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نے ہمیں دین سے بہت دور کر دیا ہے۔ آج ہم ”ماڈر نزم“ کی آڑ میں بے حیائی‘ فحاشی‘ عریانی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی قومی زبان اردو کے برعکس انگریزی تہذیب اور زبان و کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ نفسا نفسی ‘ بے حسی اور خود غرضی کے اس دور میں نہ کسی کو مذہب کی فکر ہے اور نہ ثقافت عزیز ہے۔
اصل میں دلوں سے خدا کاخوف اور اس کی مخلوق سے محبت کے جذبات محو ہو چکے ہیں اور یہ ہی وہ دو اوصاف ہیں جن پر دین کی بنیاد ہے اور جو خود ایمان سے پیدا ہوتے ہیں۔
افسوس کہ ہم ”دین“ کی بجائے انگریزی تہذیب و زبان اور کلچر کو اپنانا باعث فخر گردانتے ہیں چونکہ ہمیں اس کلچر میں بے راہ روی اور عیاشیوں کے سامان وافر مقدار میں میسر ہیں۔
دوسری طرف غور سے دیکھیں کہ تقویٰ‘ عفت ‘ عصمت‘ حمیت‘ حیا‘ ایمان‘ حلم‘ اخوت‘ اللہ اور اس طرح ہزاروں الفاظ جو کہ ایک مسلمان کی زندگی کا حصہ اور اس کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کو اپناکر ہی ایک مسلمان حقیقی معنوں میں مرد مومن کہلاسکتا ہے لیکن انگریزی زبان اپنے مخصوص کلچر کی بنا پر مسلمانوں کی ان کیفیات اور احساسات کو ادا کرنے کے لیے اپنے دامن میں الفاظ ہی نہیں رکھتی کیونکہ انگریزی زبان جس سیاسی‘ معاشرتی‘ مذہبی اور ثقافتی ماحول میں پروان چڑھی ہے وہاں تقویٰ کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ذرا دل و دماغ سے سوچئے کیا انگریزی زبان کے ماحول میں مسلمانوں کے بچے اسلامی نظام حیات کو اپنانے میں قطعی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انگریزی زبان کے الفاظ اردو کے مقابلے میں قطعی تنگ اور کم مایہ ہیں وہ مسلمانوں کے فکر وخیال کو گمراہی اور بے راہ روی کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی تہذیب کے حامل افراد کی قومی زندگی منتشر اور پراگندہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔
اسلامی اقدار اور روایات کے اظہار کے لیے جس ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ انگریزی زبان اس سے یکسر قاصر ہے۔
بعض ناعاقبت اند یش یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ انگریزی زبان کی تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ذرا غور فرمائیے۔ ہمارے ہادی برحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی 63سالہ زندگی میں اسلام کا جو پیغام دیا اور جس قدر کامیابیاں حاصل کیں اس میں انگریزی تعلیم کا کتنا عمل دخل تھا ؟ آج پوری دنیا میں اسلام کے نام لیوا موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ثقافت کو مقدم نہ سمجھا اور آج وہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ کیا جاپان اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
ہاں جو اصحاب یہ فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اسلامی شعائر زندگی کو قبول نہیں کرنا تووہ یہ بات کہنے میں یقینا حق بجانب ہوں گے کہ انگریزی زبان پر دل و جان نچھاور کئے بغیر زندگی محال ہے۔
صد افسوس کہ آج ہم اسلامی روحانی اور اخلاقی اقدار اور روایات کو پس پشت ڈال کر ”ترقی“ حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ توانا قوموں کی پیروی کر کے ہی ہم ترقی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی پس ماندگی اور حقیقی فروتری پر پردہ ڈال کر ہم ترقی کے راستوں پر چلنے کے خواہاں ہیں۔ حالانکہ انسانی صلاحیتوں میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ صرف اور صرف کم ہمتی‘ پست حوصلگی‘ کوتاہ نظری اور تن آسانی‘ عمل سے دوری ہماری ترقی اور فلاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔
آج ایک غیر ملکی زبان کو اپنا کر ہم اپنی ثقافت کو اپنے ہی ہا تھوں سے لٹا رہے ہیں۔ وہ ثقافت جس کی گود میں ہماری قومیت کی تعمیر ہوئی تھی باعث تعجب بات تو یہ ہے کہ اپنی ثقافت کو مٹتے اور برباد ہوتے دیکھ کر بھی نہ ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں اور نہ دلوں میں درد۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے مغربی تہذیب اور کلچر کی اندھا دھند پیروی کی وجہ سے ہمارے دل زنگ آلود ہو گئے ہیں کہ ہم اچھائی برائی میں تمیز کر نے کی قوت سے محروم ہو چکے ہیں۔
کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ثقافت کی کمزوری سے ہماری قوم میں خود غرضی‘ سہل انگاری‘ فرض ناشناسی‘ اخلاقی کمزوری اور اخلاق کی پستی کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب صرف ایک بے پناہ احساس کمتری کا سیلاب ہے جس کے مظاہرے ہمیں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔
یقین جانئے کہ بے حسی کے اس دور میں اپنی قومی زبان اردو کی حفاظت کرنا ۔ ثقافت کو بچانا ہمارا اولین فریضہ ہے۔
ہماری جن صاحب دل اور محب وطن بزرگ ہستیوں نے اردو زبان کے لیے خدمات سر انجام دی ہیں وہ کبھی بھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ایک دن ان کا یہ خواب (کہ پاکستان میں عملی طور پر اردو زبان کا نفاذ ہو) ضرور شرمندہ تعبیر ہو گا۔
یاد رکھئے کہ قومی وحدت کا رشتہ مضبوط کرنے کے لیے قومی زبان کا وجود ناگزیر ہے۔ ہم کب تک اپنی قومی زبان اردو سے بے مروتی برتیں گے اور اسے انتظار گاہ میں بٹھائیں گے۔ یقینا قومی زبان کا عملی طور پر نافذ نہ ہونا ایک بہت بڑا المیہ ہے ایک ایسے ملک اور ایک ایسی قوم کا جس نے کچھ وعدے اور دعوے کر کے آزادی حاصل کی تھی اور اب اس آزادی و خود مختاری کی ذمے داریوں سے غافل ایک ایسی راہ پر گامزن ہے جو غیرت و حمیت رکھنے و الی قوموں کو زیب نہیں دیتی۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اردو کی مقبولیت کے لیے کوئی کام کریںگے تو اپنا فرض ادا کریں گے اور اگر کچھ نہ کریں گے تو خود نافرض شناس ثابت ہوں گے اور اردو کا کچھ نہ بگڑے گا۔
بقول مولانا صلاح الدین احمد:
” مبارک ہیں وہ لوگ جنہوں نے عوام سے رشتہ محبت نہیں توڑا اور اپنی اولاد کی انہی روایات کے مطابق پرورش کی ہے جو ہماری ملکی اور ملی تہذیب سے منسوب ہیں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جن کے گھروں میں ایک پاکیزہ مشرقی فضا پائی جاتی ہے اور جن کے بڑے اور بچے اپنے دیس کی زبان بولتے اور اس میں اپنی روح کی تسکین تلاش کرتے اور پالیتے ہیں اور مبارک ہیں وہ خاندان جن کے چشم و چراغ اپنے ملک و ملت اور اپنی تہذیب و تمدن کی محبت سے سرشار ہیں ایک ایسی محبت جو ان کے ساتھ جوان ہو گی اور ان سے ایسے کارنامے انجام دلوائے گی جوا ن کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے اور ان کے وطن کے لیے سرمایہ افتخار ہو ں گے۔“
میری دانست میں اردو زبان کے عملی نفاد میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی خود اُردوداں طبقہ ہے۔ فرقہ پرستی کی لعنت نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔آج نہ صرف اجتماعی طور پر بلکہ انفرادی طور پر بھی ہم اتحاد و یگانگت‘ محبت و آشتی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے ادبی حضرات بھی اس گروہ بندی کا شکار ہیں۔ تعصب اس حد تک ہے کہ ایک دوسرے کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں میںسبقت لے جانے میں مصروف ہیں اگر ہم اپنی قومی زبان کو پنپتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیںتوہمیں اس گروہ بندی اور تعصب سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اور متحد ہو کر اردو زبان کے عملی نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ ایک دوسرے کو درگزر کرنے کی صفت اپنانا ہو گی۔ اردو زبان کے تحفظ میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔ عملی طور پر میدان میں آنا ہو گا۔ علامہ محمد اقبال نے دو قومی نظریے کا جو تصور پیش کیا تھا اگر قائداعظم ؒ عملی طور پر وطن عزیز کے لیے کوشش نہ کرتے تو آج دو قومی نظریہ بھی کاغذ کے ٹکڑوں میں ہی بکھرا پڑا ہوتا۔
جب تک ہمارے درمیان ہم آہنگی نہیں ہو گی ہماری سوچ ایک نہیں ہو گی اس وقت تک اردو زبان کو ہم اس کا حق نہیں دلا سکیں گے اسے مسند پر نہیں بٹھا سکیں گے۔
ہمیں مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر کرنا چاہیے نہ کہ انگریزی کلچر اپنانے پر۔ اگر پاکستان ہماری شناخت ہے تو اردو ہماری شان ہے۔ یہ ہی ہماری وہ ثقافت ہے جو ہمیں غیر قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ دور حاضر میں ثقافت اسلامیہ کی بقا اور تحفظ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔