تحریر شاہد لطیف
kshahidlateef@gmail.com
میں اپنی بیٹی کے ساتھ 27 جولائی بروز سنیچر، پیکیجز مال، لاہور میں واقع سِنی پیکس میں نئی فلم ” عمرو عیار “ دیکھنے گیا۔ 3:00 بجے شو کے ہم نے 650 روپے فی ٹکٹ ادا کیے۔ سنیماکے واش روم بہتر اور صاف ستھرے تھے۔ ٹکٹ لینے سے لے کر متعلقہ اسکرین کے دروازے پر راہنمائی کرنے والی خاتون سمیت سنیما کا عملہ خوش اخلاق تھا۔ کوئی ایک بھی شخص دنیا سے یا آدم بیزار محسوس نہیں ہوا۔یہ فلم اسکرین 4 پر چلنا تھی۔ہال میں بیٹھنے کے لئے 6 قطاریں تھیں اور ہر ایک قطار میں 13 نشستیں تھیں۔گویا 78 نشستیں ہوئیں۔ہال تقریباً بھرا ہوا تھا۔فلم سے پہلے اشتہارات اور فلموں کے ٹریلر دکھائے گئے۔ آواز بہت بڑھی ہوئی تھی جو کانوں اور دماغ پر گراں گزر رہی تھی۔ فلم شروع ہونے سے پہلے اسکرین پر لکھا آیا کہ آپ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو جائیں۔کچھ لوگ کھڑے ہو گئے۔کچھ نے کھڑے ہونے سے اجتناب برتا اور کچھ ’ بادلِ نا خواستہ ‘ کھڑے ہوئے۔ خود قومی ترانے پر بحث چل رہی ہے کہ آیا سنیما میں قومی ترانے کو مکمل بولوں کے ساتھ چلانا چاہیے یا قومی ترانے کو نئے سازوں کے ساتھ محض دھن کی صورت میں بجانا چاہیے جیسا کہ آج کل سنیماوں میں ہوتا ہے۔میں اس خیال میں تھا کہ اصل فلم میں آواز کی سطح کو مناسب درجے پر رکھا جائے گا۔مگر آخر تک عملے نے آواز کم نہیں کی۔ ہو سکتا ہے فلم ” عمرو عیار “ دوسرے سنیما گھروں میں مناسب آواز میں چلتی ہو اور عین ممکن ہے کہ خود اسی سنی پیکس کی دیگر اسکرینوں پر چلنے والی فلموں کی آواز کو مناسب سطح پر رکھا جاتا ہو۔ مذکورہ فلم دیکھتے ہوئے میں 1970 کی دہائی میں پہنچ گیا جب میں 1972 سے 1974 تک ڈرگ کالونی (موجودہ شاہ فیصل کالونی) میں رہتا تھا۔میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر دو سنیما ” شمع “ اور ” شبنم “ تھے۔ دونوں میں جمعہ کو نئی فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوتیں۔ میں یہ شوق سے دیکھتا۔ جہاں کوئی رقص آتا، پروجیکشن روم سے آواز بڑھا دی جاتی۔ لیکن گانا ختم ہونے پر ساونڈ آپریٹر آواز کو پہلے والی سطح پر لے آتے۔ میں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہت سی نئی پرانی انگریزی اور بھارتی فلمیں سنیما گھروں میں دیکھیں۔وہاں تو کبھی کسی ڈانس یا کسی سین پر آواز نہیں بڑھی۔ ڈائریکٹر وِلیم فریڈکِن کی مافوق الفطرت خوفناک فلم ” ایگزارسِسٹ “ (1973) میں نے کراچی کے کسی سنیما گھر میں دیکھی تھی۔اس کے بعض مناظر میں اصل ساونڈ ہی ایک دم سے بڑھ جاتی تھی جو سین کی ڈیمانڈ بھی تھی۔ یہ قطعی پرو جیکشن والوں کا کام نہیں تھا۔میں جب 1985 میں کولمبیا کالج شکاگو اور ہالی ووڈ، لاس اینجلس فلم اور ویڈیو کورس کرنے گیا تو وِلیم فریڈکِن(اگست 1935 سے اگست 2023) ہمیں لیکچر دینے شکاگو کیمپس آئے لہٰذا یہ میرے استاد ہوئے۔انہوں نے اپنی مشہور فلموں: ” فرینچ کنکشن “(1971)، ” ٹو لِو اینڈ ڈائی اِن ایل اے “ (1985) وغیرہ کے بارے میں بتایا۔دیگر باتوں کے ساتھ ساونڈ کی اہمیت پر بہت زور دیا۔میں نے 1979 میں وسطی افریقہ کے ملک بورونڈی میں خود ایک سنیما کے پروجیکشن روم میں 35 mm کاربن آرک پروجیکٹر پر فلمیں چلائیں۔میں یہ فلمیں کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے فلم تقسیم کاروں سے لاتا تھا۔ اِن میں فلمساز و ہدایتکار پراکاش مہرہ کی فلم ” زنجیر “(1973)، انہی کی ” مقدر کا سکندر “(1978)، فلمساز ٹونی گلیڈ اور ہدایتکار راکیش کمار کی فلم ” مسٹر نٹور لال “ (1979) اور بھارت سے آنے والے فلمساز و ہدایتکار محمود صادق المعروف ایم صادق کی پاکستانی فلم ” بہارو پھول برساو “ (1972) کے میں نے بہت شو چلائے لیکن کسی ڈانس پر آواز نہیں بڑھائی۔کبھی کسی فلمی شائق نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ میں نے 1978 میں گراموفون کمپنی آف پاکستان، کراچی اسٹوڈیوز میں لائیو ساونڈ ریکارڈنگ، کیسٹ ماسٹرنگ وغیرہ کا کام سیکھا لہٰذا مجھے اسکرین پر فلم کے ساتھ آواز کے معیار اور اہمیت کا اندازہ ہے۔ اسکرین پر خوبصورت مناظر چل رہے ہوں اور آواز بہت زیادہ ہو تو فلم کی خوبصورتی ماند پڑنے لگتی ہے۔بات سے بات نکلتی ہے۔میں پروڈیوسر سلطانہ صدیقی کے سا تھ پی ٹی وی کراچی سے 1981 میں مو سیقی کا پروگرام ” سر سنگم “ پیش کرتا تھا۔ ایک پروگرام نامور موسیقار نثار بزمی صاحب سے بھی کروایا۔اس کی صدابندی شالیمار ریکارڈنگ کمپنی میں ہوئی۔مِکسنگ کے وقت بزمی صاحب نے ساونڈ انجینئر شریف صاحب سے کہا کہ مانیٹر کی آواز گھر میں ٹی وی کے والیوم کے برابر رکھ کر بیلینس کرو کہ ہر ایک ساز کی آواز صاف سنائی دے۔یہ کمال بات ہے!! 1970 کی دہائی میں اکیڈمی ایوارڈ یافتہ مزاحیہ فلم ” اِٹ از اے میڈ میڈ میڈ میڈ ورلڈ“(1963) جب کراچی میں نمائش کے لئے پیش ہوئی تو میں بھی گھر والوں کے ساتھ دیکھنے گیا۔ شروع کے منظر میں کار ڈرائیور کو دورہ پڑتا ہے اور گاڑی بے قابو ہو کر کھائی میں جا گرتی ہے۔ جب دھول مٹی بیٹھ جاتی ہے تو مشروب کا ایک خالی ڈبّہ لڑھکتا ہوا نیچے آتا ہے۔ پروجیکشن روم سے آواز کو ایک دم اتنا اونچا کر دیا گیا کہ دل بند ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہ کوئی خوفناک تو نہیں بلکہ کامیڈی فلم تھی! جب انٹر نیٹ پر فلمیں آنا شروع ہوئیں تو میں نے اس منظر کے لئے یہ فلم پھر دیکھی۔ ڈرامائی تاثر کے لئے فلم میں جاری آواز کی سطح سے تھوڑی بڑھی ہوئی ضرور تھی لیکن کسی بھی طور کانوں کو بری نہیں لگی۔ بہرحال سنی پیکس انتظامیہ سے عرض ہے کہ یہ تنقید برائے تعمیر ہے۔ہو سکے تو اپنے پروجیکشن روم کے اسٹاف کو بتائیں کہ سنیما میں اسکرین مناظر کے ساتھ آواز کے خوشگوار تاثر کے لئے یہ تین چیزیں ضروری ہیں: صاف اور سمجھ میں آنے والے مکالمے، ساونڈ ایفیکٹ/صوتی اثرات جن سے دکھائے جانے والے مناظر میں جان پڑتی ہے اور پس منظر موسیقی جو اسکرین پر پیش کیے جانے والے منظر کے موڈ سے مطابقت رکھتے ہوئے حقیقت کا روپ دے یا پھر کوئی رزمیہ نظم، گیت جس سے کہانی آگے بڑھے۔اب اگر ہال میں آواز ضرورت سے زیادہ ہو تو یہ تینوں عناصر اپنی افادیت کھو دیں گے۔ اور پیکیجز مال کے سنی پیکس کی اسکرین 4 میں دکھائی جانے فلم ” عمرو عیار “ کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔