ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین کرام،یہ بات آپکے نوٹس میں لانا انتہائی ضروری ہے کہ پنشنرز کو جو رقم ،،میڈیکل الاونس،، کی مد میں آج سے پندرہ سال سے بھی پہلے ان کے محکموں سے ادا کی جاتی تھی آج بھی انیس بیس کے فرق سے جوں کی توں ہی ہے جبکہ آج دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ اس مد جس کو ہم،، میڈیکل الاونس،، کہتے ہیں ، اس سے حکومت ان بزرگ پنشنرز کو رقم اداکرتی ہے جو وہ ہر مہینے اپنے علاجمعالجے کے لئے رکھتے ہیں اور استعمال میں لاتے ہیں ۔ آپ یہ سن کو حیران ہوں گے کہ اس علاج معالجے کی مد میں گریڈ ایک سے سولہ صرف ڈیڈھ ہزار روپیہ ماہانہ تک اور اوپر گریڈ والے بھی پنشن کاصرف پچیس فیصد جو چندہزارپانچ سے سات ہزار ہزارماہانہ سے زیادہ نہیں ہے، ایک ماہ کے دوا دارو کےلئے عنائت ، ادا کرتی ہے جس میں پچھلے تقریبادس سال سے ایک پیسے کا اضافہ نہیں کیا گیاہر شخص جانتا ہے کہ بازار میں جائیں تو جو دوائی کی قیمت پہلے ایک یا دو روپے ہوتی تھی آج پچاس روپے میں دستیاب ہے جتنے پیسے میڈیکل الاونس میںحکومت وقت آج سے پندرہ سال پہلے ریٹائرڈ ملازمین کو ادا کر تی تھی تھا آج بھی اتنے ہی ہیں۔ کیا یہ کوئی قابل فہم سخص یہ مان سکتا ہے کہ دوائیوں کے اس بڑھتے ہوے ریٹس ، اور مہنگائی کے اس طوفان میں میں کیا آج سے دس سال پہلے کےمیڈیکا الاونس جو صرف دو ہزار سے پانچ سات ہزار تک آج بھی ریٹائرڈ ملازمین کو دیا جا رہا ہے ،کسی مذاق سے کم نہیں جبکہ اس اس بوڑھاپے میں جب کہ ویسے بھی صحت جواب دے رہی ہوتی ہے اور لا محالہ بیماریوں کا اس بڑھتی ہوی عمر میں انسان کو گھیر لینا عام سی بات ہے، ایسے حالات میں حکومت وقت کے نوٹس میں یہ بات لائی جا رہی ہے کہ برائے مہربانی اس پندہ سال سے زیادہ عرصہ سے،، فکسڈ میڈیکل الاونس،، کی مقدار کو بڑھایا جائے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ میرے جیسا ایک ادنی سا لکھاری جو میڈیکل الاونس آج سے پندہ سال پہلے لے رہا تھا ، اس میں آج کے دن ایک پیسے یا رتی کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا اس کو باعث شرم قرار د یا جا سکتا ہے ۔قارین کے علم میں شائد نہ ہو ، کہ پہلے یکم جولائی دو ہزار دس جب جناب زرداری صاحب کا دور تھا ، اور پھر یکم جولائی دو ہزار پندرہ کو پنشنز میں کبھی ساڑھے سات فیصد ، دس فیصد اورصرف پچھلے سال اتنے احتجاج کے بحد ساڑھے سترہ فیصد کی شرح سے اضافہ کیا جاتا رہا لیکن میڈکل الاونس کی شرح جوں کی توں ہی رکھی جاتی رہی۔ جیسے یہ کوئی شجر ممنوعہ ہے ، اس کو نہیں چھیڑنا ۔ان عقل کے اندھوں کو کوئی یہ بتائے کہ آج کے اس دور میں کیا دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں نہیںکر رہیں ہیں، کیا روز مرہ کی اشیا ضروریہ بشمول ادویات کی بڑھتے ہوی قیمتیں اخراجات کی قیمت صرف پنشن بڑھانے سے تو نہیں پوری ہوتیں۔ کیا بزرگ پنشنرز اس ملک کے شہری اب نہیں ہیںجناب یا وہ کوئی اور لوٹ مار ی میں مصروف کار ہیں ۔ اس لئے گزارش ہے کہ اس ادنی سی گزارش کو قابل غور سمجھا جائے اور اس کوکسی قسم کا سیاسی یا ذاتی ایجنڈا نہ سمجھا جائے کہ ان کے لئے اور بہت سے فورم ہیں لیکن یہ بزرگ پنشنرز امید واثق رکھتے ہیں کہ ان کی اس درخواست کو صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر غور کیا جائے ۔ ہم ملک کی معاشی صورتحال سے ہر گز غافل نہیں لیکن ہماری بھی عرضداشت کو قابل غور سمجھتے ہوے اس پر ہمدردانہ غور کیا جائے اور اگر اس کو بڑھا نا نہیں تو اتنے کم میڈکل الونس کو دینے کا ہر گزکوئی فائدہ نہیں ، اس سے بہتر یہی ہے کہ اس کو واپس لیا جائے اس کو نہ دینا ہی بہتر ہے۔ ہماوی اہل ارباب سے گزارش ہے کہ نہ ہم دوہری پنشنوں کے حق میں ہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی سیاسی مقصد ہے، ہم صرف اہل اقتڈار سے عرض کرتے ہیں کہ ہماری اس جائزعرض داشت کو پزیرائی اور قبولیت ملے اورموجودہ مہنگائی کے اس دور میں میڈیکل الاونس میں خاطر خواہ اصافہ کیا جائے جوکم از کم پچیس ہزار ماہانہ تک تو ہو۔