امت مسلمہ نے جب تک باطل سے سمجھوتہ نہ کیا ، آپس میں پیار و محبت سے رہتے رہے ، عبادت میں مگن اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہے ، اللہ تعالی کا خوف دل میں رہا ، اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے رہے ، امانت میں خیانت نہ کی تب تک امت مسلمہ کو عزت و عظمت نصیب رہی۔ اور امت مسلمہ عروج اور ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ لیکن جب امت مسلمہ نے اسلام اور ایمان سے دوری اختیار کی ، سہل پسندی کو اختیار کر لیا ، امانت میں خیانت کرنے لگے ، موت کی جگہ زندگی محبوب ہو گئی اور دین کی جگہ دنیا کو اپنا محبوب بنا لیا اور خود پرستی اور ہوس پرستی عام ہو گئی دینی مفادات پر ذاتی مفادات کوترجیح دی تو امت مسلمہ کا عروج زوال میں بدل گیا۔
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئین ہوا کافر تو ملے حور و قصور
اما م مالک رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ”اس امت کے آخر کی اصلاح بھی وہی چیز کرے گی جس نے اسکے اول کی اصلاح کی تھی “۔ وہ کیا چیز تھی جس نے عرب کے بدوﺅں اور جاہل قوم کو نا قابل تسخیر بنا دیا تھا اور غلاموں کو نئی زندگی دی تھی۔ ایک شتر بے مہار قوم نے اپنے اعلیٰ ترین مقصد پر سب کچھ لٹا دیا تھا اور لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کرنے لگے تھے۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف جذبہءایمان کی وجہ سے تھا۔ اور آج امت مسلمہ تعداد میں بہت زیادہ ہونے کے باوجود پستی اور زوال کا شکار ہے۔ اسکی وجہ صرف اور صرف ایمان سے دوری ہے۔ یہ ایمان کی قوت ہی تھی جس کی وجہ سے مسلمان ہر جگہ چھائے ہوئے تھے اور مسلمانوں نے سینکڑوں سال دنیا پر حکومت کی۔
امت مسلمہ کے عروج اور ترقی کی وجہ بننے والی صفات کہاں سے آئیں، یہ سب ایمان کی قوت کی بدولت تھا۔ جب بندے کو ایمان مل جاتا ہے اور اللہ تعالی کی قوتوں پر یقین ہو جائے تو انسان بہادر بن جاتا ہے۔ جب بندے کو اس بات پر یقین ہو جائے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی عطا ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں تو وہ امانت دار بھی بن جاتا ہے اور ذمہ دار بھی۔ جب بندے کا اس بات پر ایمان پختہ ہو کہ یہ دنیا فانی ہے اصل زندگی تو آخرت کی ہے تو دنیوی معاملات سے نکل کر آخرت کی فکر میں لگ جاتا ہے۔
ایمان ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے بندہ خود کو خالق حقیقی سے وابستہ کر لیتا ہے تو وہ پوری دنیا کی وسعتیں سمیٹ لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
امت کے زوال کی وجہ ایمان سے دوری(۱)
Aug 03, 2024